اِک مردِ باوقار تھا فاروقؔ نازکی باغِ ادب کی بہار تھا فاروق ؔ نازکی تاریخِ تُند دیگی کل یہ آپ گواہی کیا شاعر و نشار تھا فاروق ؔ نازکی ودیعت…
سالِ رفتہ کل تلک مہمان تھا ہر کلینڈر پہ لئے پہچان تھا باحیات سویا تھا شب کو بے خبر صبح جاگے تو یہی بے جان تھا وقت پہ کرتے ہیں ناداں اعتبار اسکو…
دستبردار ہونا پڑے گا آج یا کل ہر شے اپنا سمجھ بیٹھا ہوں یہ بھی میرا وہ بھی ہے میرا ہم خود کے نہیں غفلت میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن…