نظمیں

محمد اسد اللہ استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے ان ہی سے ہیں افراد ضیا بار ہمارے جینے کا سلیقہ بھی ہمیں ان سے ملا ہے احساسِ عمل…
گرحادثۂ دہر سے ہم دوچار نہیں ہوتے ہوتے ہوئے بھی صحت مند ہم بیمار نہیں ہوتے اِس گردشِ دوران کے مارے ہیں ورنہ اپنے ہی گھر میں آج ہم پسِ دیوار نہیں ہوتے قُدرت…
مجھے حسرت ہے جینے کی مجھے جنگل بچانے دو جہاں دیکھو ں جگہ خالی مجھ کو پیڑ لگانے دو اگر تم کو بھی جینا ہے تو کڑوا زہر پینا ہے…