عورت

عورت کو سمجھو نہ جاگیر اپنی
نہ یہ خواب اپنا نہ تعبیر اپنی
اُلجھتی ہے خود سے ہی لاچار ہو کر
ہر اِک بات سمجھے یہ تقصیر اپنی
کرتی ہے ہر ایک سِتم کو گوارا
بناتی ہے ایسے یہ تقدیر اپنی
ستائے گا اِس کو بتا کیا زمانہ
سِناں جِس کی اپنی ہے شمشیر اپنی
کرے دفن خواہش کو اپنے ہی ہاتھوں
مسخ کیوں کرے گی یہ تصویر اپنی
نوالے کی خاطر یہ حُرمت نہ بیچے
سنبھالے یہ عِزت و توقیر اپنی
شِکایت لبوں پہ نہ لائے گی ہر گِز
طبعیت رہے چاہے دِلگیر اپنی
اگر یونہی چلتا رہا سِلسِلہ تو
یقیناً یہ توڑے گی زنجیر اپنی

روبینہ میر
منڈی پونچھ، جموں