سالِ رفتہ کل تلک مہمان تھا ہر کلینڈر پہ لئے پہچان تھا باحیات سویا تھا شب کو بے خبر صبح جاگے تو یہی بے جان تھا وقت پہ کرتے ہیں ناداں اعتبار اسکو…
دستبردار ہونا پڑے گا آج یا کل ہر شے اپنا سمجھ بیٹھا ہوں یہ بھی میرا وہ بھی ہے میرا ہم خود کے نہیں غفلت میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن…
دونوں اطراف ہے نسلِ آدم مکیں، پھر یہ مابیں جنگ و جدل کِس لئے ہے مسلّم کہ سب کا خدا ایک ہے ،پھر یہ تفریقِ رنگ و نسل کِس لئے جِنسِ عالم…