نظمیں

’’آؤ دو باتیں کرلیں ‘‘

فرصت کے دو چار پل
کبھی نکال کے آؤ
دو باتیں کرلیں
میرے گھر کے لان میں
اک کرسی خالی رہتی ہے
بیٹا بہو ڈیوٹی پہ چلے گئے
بچوں کو میں اسکول چھوڑ آیا ہوں
اب تین بجے لینے جانا ہے
تب تک میں ہوں اور یہ خالی کرسی
گھر کا رستہ بھی اب پکا ہے
جس دریا کے کنارے پہ ہم ملتے تھے
وہ کب کا سوکھ گیا
لوگوں نے مل کر بانٹ لیا
اس پر اب اک کالج ہے
جہاں دریاؤں کا سبجیکٹ پڑھایا جاتا ہے
اک ہسپتال ہے
جہاں پانی کے بیماروں کا علاج ہوتا ہے
پاس میں جو سرسوں کے کھیت تھے
اس پر اب شاہراہ گزرتی ہے
سیر سپاٹوں کی
دوڑتی پھرتی کاروں کی
زندگی کی عجلتوں کی
گاؤں کے اس پار جو ہریالی کا جنگل تھا
وہ اب ریل کی پٹڑی ہے
چھک چھک شور
دن بھر دوڑتا رہتا ہے
یاد ہے تم کو
ہم دونوں کا رشتہ کیوں بن نہ سکا تھا
میں گاؤں کا سیدھا سادہ اک لڑکا
اور تم شہر کی الہڑ شہزادی
آؤ دو پل خود دیکھو گی
اب میرا گاؤں بھی تیرے شہر جیسا ہے
ندی نہیں ہے پیڑ نہیں ہیں
سرسوں کے وہ کھیت نہیں ہیں
چڑیوں کا بھی شور نہیں ہے
دھول دھواں ہے کارخانوں کا
چاند ستارے مدھم مدھم
دھوپ بھی میلی میلی سی ہے
چشمے سوکھے۔۔ دھنک نہیں ہے
بس یادوں کا اک دھندلا منظر
دھول میں لپٹا لپٹا ہے
فرصت کے دو چار پل
کبھی نکال کے آؤ
دو باتیں کرلیں
اک کرسی خالی رہتی ہے ۔۔۔!

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد
کشمیرموبائل نمبر؛9419045087

 

 

قطعات

زندگی ایک بار ہنسا دے مجھے
غم میرے سارے بُھلا دے مجھے
احسان کرنا ہے مجھ پہ تو کر
میری محبت کا صلہ دے مجھے

یاد تیری جو دیوار پر سنور جائے
کون ہوگا جو پھر اس سے مُکر جائے
عشق کا تیر قیامت سے کچھ کم تو نہیں
ہو اندھیرا کہ اُجالا دل میں اُترجائے

بات کتنی ہی کر چکا تھا میں
دل کے زخموں کو بھر چکا تھا میں
نیند آئی تو خواب میں دیکھا
تیرے پہلو میں مرچکا تھا میں

عثمان طارق
ڈول، کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9797542502

 

ماں
بچپن کے وہ دن تھے کیسے بھول گئی ہیں باتیں ماں
نیند تو کھو بیٹھی، آنکھوں میں کٹتی ہیں اب راتیں ماں

شہر میں تیرے یوں تو میرا آنا بھی ہے جانا بھی
سب کچھ ہے موجود سوائے تجھ سے ملاقاتیں ماں

آتے آتےرستے میرے دیکھے کون اب تیری طرح
جاتے جاتے دیگا کون دعائوں کی سوغاتیں ماں

دل کی دنیا اُداس ہوئی ہے اب اک دلہن کی مانند
نہ ہی خوشی، نا قہقہے نہ خوشیوں کی باراتیں ماں

دنیا داری کی خاطر گو سحرؔ ہنسے کچھ باتوں پر
دل میں تری یادوں کی جلن اور آنکھوں میں برساتیں ماں

ثمینہ سحر ؔمرزا
بڈھون، راجوری