۔2دہائیوں میں طلاق کی شرح دوگنی ۔ 2012سے اب تک 30فیصد کا اضافہ ،ہر دو ماہ میں10کی طلاق کی شرح

جموں وکشمیر میں طلاق شدہ خواتین کی تعداد 18069

سرینگر //طلاق ایک سنگین مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ ہندوستان میں، حالیہ برسوں میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔بھارت میں طلاق کی شرح سال بہ سال مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلی دو دہائیوں میں طلاقوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔جموں و کشمیر میں طلاق یافتہ کل آبادی 18069 ہے ۔ ان میں ہندئوں کی شرح0.20اور مسلمانوں کی شرح 0.34ہے۔ جموں و کشمیر، مغربی بنگال اور کیرالہ میں مجموعی طور پر ازدواجی تحلیل کی سب سے زیادہ شرحیں ہیں ۔ ایک تحقیق میں کشمیر میں طلاق یافتہ خواتین کو سماجی، معاشی، ثقافتی اور نفسیاتی جہتوں میں درپیش چیلنجوں کا جائزہ لیا گیا ہے، جس میں دیہی اور شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی 600 طلاقیوں کا سروے کیا گیا ہے۔نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ دیہی علاقوں میں 38.3 فیصد اور شہری علاقوں میں 37.4 فیصد اپنی طلاق پر غمگین ہیں، جب کہ دیہی علاقوں میں صرف 13.3 فیصد اور شہری علاقوں میں 15.3 فیصد فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ لاپرواہی کا احساس دیہی علاقوں میں 51.7 فیصد اور شہری علاقوں میں 51.3 فیصد ہے۔جموں و کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام نے کہا کہ 2012 سے اب تک وادی میں طلاق کے واقعات میں اندازاً 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

 

انکا کہنا ہے کہ 6سال قبل وہ مہینے میں کم از کم دو یا تین طلاقیں ہوتی تھیں لیکن اب شرعی عدالت میں ایک سے دو ماہ کے اندر کم از کم 10 طلاقیں باقاعدہ بنیادوں پر ہوتی ہیں اور جوڑوں کے درمیان مصالحت اکثر ناکام ہو جاتی ہے، جو پہلے کا رجحان نہیں تھا” ۔انہوں نے کہا کہ معمولی باتوں کو لیکرمعاملات شادی شدہ جوڑوں کے درمیان تعلقات کو بگاڑ دیتے ہیں جو بالآخر طلاق پر منتج ہوتے ہیں۔مفتی نے کہا کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا ایک اور عنصر منشیات کا استعمال بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ ساس بہو اور بھابی نند کی لڑائیاں طلاق کا باعث بننے میں سب سے بڑی وجہ ہے۔مفتی اعظم کا کہنا ہے “مرد، اکثر اپنی بیویوں کے خلاف پرتشدد ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے گھریلو تشدد کے قوانین کے تحت طلاق کی درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔بہت ساری طلاقیں شوہروں کی بیویوں کے سسرال کی خدمت نہ کرنے کی شکایات سے ہوتی ہیں۔ وادی کے خواتین پولیس تھانوں میں ہر روزمیاں بیوی کے تعلقات کے حوالے سے اوسطاً 10کیس درج ہوتے ہیں۔ان میں دو کیس طلاق کرانے کیلئے درج ہورہے ہیں۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ازدواجی زندگی کے مسلسل تنا ئواور تنازعات بار بار میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا باعث بنتے ہیں۔ کشمیر میں خواتین کی جانب سے علیحدگی کی جو وجوہات سامنے آئی ہیں ان میں سسرال والوں کا ناپسندیدہ رویہ، میاں بیوی کے درمیان غلط فہمی، بیوی پر شوہر کا شک اور بیوی پر جسمانی تشدد ، شادی کے بعد والدین اور سسرال والوں کی غیر ضروری مداخلت شامل ہیں۔ کشمیری سوسائٹی میں طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔جموں کشمیرہائی کورٹ کے ایک معروف وکیل، ایڈوکیٹ عبدالطیف وانی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سرینگر کی ذیلی عدالتوں میں اوسطاً ایک ماہ کے دوران 60ایسے کیسز آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ منشیات کی لت بھی ازدواجی ٹوٹ پھوٹ کی ایک ابھرتی ہوئی وجہ معلوم ہوتی ہے، صرف 2019 میں منشیات کی لت کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں اختلافات پیدا ہونے کے سرسری طور پر 1,023 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2015 کے بعد کے اعداد و شمار کے مطابق طلاق کے لیے عمر 25-34 سال کے درمیان سب سے زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اعدادوشمار یہ ظاہر کررہے ہیں کہ کشمیر میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، خاص طور پر شہری اور تعلیم یافتہ جوڑوں میں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اگرچہ 10سال قبل طلاق کے معاملات کی شرح بہت کم تھی لیکن اب ان واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر 1000شادیوں میں تقریباً50طلاق پر ختم ہورہی ہیں۔انکا کہنا تھا کہ دو دہائیوں کے دوران اس میں 20فیصداضافہ ہوا ہے اور خواتین تیزی سے طلاقیںہورہی ہیں۔جموںو کشمیرسٹیٹ خواتین کمیشن نے 2015میںحکومت کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ سرینگر اور جموں میں طلاق شدہ خواتین، جن کا کوئی سہارا نہیں ہے، کیلئے عارضی پناہ گائیں تعمیر کی جائیں۔ لیکن اس تجویز پر کوئی عملدر آمد نہیں ہوسکا۔