ہر تعلیم یافتہ شخص کا با شعور ہونا لازمی | ؔقسط(۲) روشن دماغ تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہیں

محمد شبیر کھٹانہ

اب ان منفی خصلتوں کی مختصر تعریف کرنا مناسب ہو گا جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
حسد:اگر کسی شخص کو ﷲ تبارک تعالیٰ نے کسی بھی اچھی چیز مثال کے طور پر مال دولت ، عزت ، شعرت، ہنر، حکمت وغیرہ سے نوازا ہے اور ایک دوسرا شخص اپنے دل و دماغ میں اس کے بارے میں غلط سوچ پیدا کر دیتا ہے اور پھر سوچتا ہی رہتا ہے اس کو یہ سب کیوں ملا ﷲ معاف کرے ﷲ نے کیوں دیا یہ تو مجھے ملنا چائے تھا یا پھر فلاں شخص کو اس کو حسد کہتے ہیں اب یہ سب سوچنے سے اس شخص کی صحت پر ایک ذرہ کے برابر فرق بھی نہیں پڑے گا جس کو ﷲ تبارک تعالی نے اپنی شان کریمی سے نواز دیاہے صرف غلط طریقے سے سوچنے والے کی عاقبت برباد اور ساتھ وقت بھی برباد ہوتا ہے، اگر اس کے بجائے وہ یہ تمام وقت ﷲ تبارک تعالیٰ کے لامحدود خزانے میں سے حاصل کرنے کے لئے صرف کرتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ حسد مذہبی تعلیم کم یا پھر باکل نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، یہاں ہر انسان کو اس بات کا پوراعلم ہونا لازمی ہے کہ اﷲ تبارک تعالیٰ کا خزانہ لامحدود ہے اور ہر ایک انسان اس خزانے میں سے حاصل کر سکتا ہے، اب ﷲ تبارک تعالیٰ اسی انسان کو کسی اچھی چیز سے نوازتاہے جو اس چیز کو سنبھالنے کے قابل ہوتا ہے یا پھر کن خوبیوں کی بنا پر ا ﷲ تعالیٰ نوازتا ہے یہ جاننا بھی کسی کے بس کی بات نہیں ۔ا ﷲ تبارک تعالیٰ اپنے شان کریمی سے ہی معلوم کر سکتا ہے کہ کون سی چیز کس کو عنایت کی تو وہ اس سے دوسروں کو کیا نقصان پہنچائے گا اور پھر کونسی خصلت یا خوبی کسی بھی انسان کے اندر موجودہے، وہ بھی توا ﷲ نے ہی اس کے اندر پیدا کی اور پھر کسی اچھی چیز سے اس کو نواز بھی دیا۔
دوسری منفی خصلت غصہ ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ دوسرے کی غلطی کی اپنے آپ کو بلاوجہ سزا دینی ایک انسان جو بھی غصہ کرتا ہے اس کا اپنا بی پی blood pressure زیادہ ہوتا ہے یا پھر اس کے جسم کے حواص خمصہ پر بہت غلط اثر پڑتاہے مگر جس پر غصہ کیا جاتا ہے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا پھر غصہ کرنے کا کیا فائدہ۔
تیسری منفی خصلت بخیلی ہے۔ ایک شخص اگر اچھا کام کرتا ھے یا اچھی سوچ رکھتا ہے تواس کے ساتھ زید کرنا بخیلی کہلاتا ہے یہ بھی انسان کی رفتار اور صحت دونوں پر غلط اثر ڈالتی ہے اور بخیل کی صحت برباد ہوتی ہے کتنا ہی بہتر ہو اگر انسان عرش والے غفورورحیم سے رابطہ پختہ کرے تو اس کے سب جائز مسائل حل ہو جائیں۔
جو انسان اپنے سماج کے تمام افرد کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرتاہے، جو اپنے والدین دیگر بزرگوں، بھائی بہنوں ،دیگر رشتہ داروں کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرکے ان سب کی دعائیں حاصل کرتا ہے، پڑوسیوں کے ساتھ بھی اچھا برتاوکرتا ہے تو ﷲ تبارک تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی شان کریمی سے نواز دیتا ہے۔
اس سماج کے اندر اگر غور سے دیکھا جائےاور جائزہ لگایا جائے تو کچھ ایسے افرد ملیں گے جن کے آباواجداد کو ﷲ تبارک تعالی نے سب کچھ دیا تھا مگر آج ا نکے پاس کچھ بھی نہیں اور پھر کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کے آباواجداد بھی امیر تھے اور آج وہ ان سے بھی زیادہ امیر اور دولت مند ہیں۔ اب ان دونوں طرح کے افراد کے رہن سہن آپسی تعلقات اور پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ برتاوں وگفتگو کے طریقے سے بھی فرق واضح ہو جاتاہے اور اگر
انسان غور کرے تو ایک سبق بھی حاصل ہوتا ہے جو افراد امن پسند ہوتے ہیں دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے نہیں کرتے، دوسروں پر ظلم زیادتی نہیں کرتے، اپنے رشتہ داروں اور برادری کے ساتھ پر امن زندگی بسر کرتے ہیں، ایسے افرادا ﷲ تبارک تعالی کو بہت پسند ہیں۔
آخر میں غور طلب بات ہے کہ با شعور کیسے بنا جا سکتاہے، اس نیک خصلت اور خوبی کے حصول کے لئے مذہبی اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم درکارہے ۔علم کی بدولت انسان اپنے اندر خوبیاں (Values) پیدا کر سکتا ہے اور منفی خصلتوں کو ترک کر سکتا ہے، اپنے تمام رشتہ داروں اور برادری کے ساتھ پر امن زندگی بسر کر کے ان کی دعائیں حاصل کرے، اپنی سوچ کو مثبت رکھے ،ضمیر کو احساس کی بدولت زندہ کرے تو پھر انشان انشاءا ﷲ با شعور ہو جائے گا۔ اب اگر علم کے اعتبار سے دیکھا جائے کسی بھی گائوں میں تمام تعلیم یافتہ اشخاص اور تمام اساتذہ اکرام کا باشعور ہونا لازمی ہے۔ اگر عظیم خصلت اپنے اندر زندہ یا تازہ کر کے تمام اساتذہ کرام بچوں کو بہترین طریقے سے پوری محنت ،لگن اور ایمانداری سے تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں، بچوں کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ ان کو پوری کوشش کے ساتھ values بھی سکھائیں، کل پورے سماج کی بھاگ ڈور ان بچوں کے باتھ میں ہو گی اور پھر سماج ضرور ترقی کرے گا۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے ملک نے اب جو NEP 2020 ایجوکیشن پالیسی مرتب کی ہے اور لاگو بھی ہو چکی ہے، اس میں بچوں میں اس طرح کی values پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے جس کی تعریف کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ تمام values اساتذہ اکرام، بچوں کے اندر تبھی پیدا کر سکیں گےجب یہ تمام values ہر ایک استاد اپنے اندر پیدا کرے گا، جب یہ values اساتذہ اکرام اور پھر بچوں کے اندار پیدا ہو گی تو انشا ءاﷲ ہر طرف امن اور پر سکون زندگی ہو گی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا اور پھر انشا ءاﷲ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا ہی سب سے بڑی values ہے، دوسروں کے ساتھ انصاف کرنے سے پہلے اپنے ساتھ انصاف کرنا لازمی ہے اور جو تعلیم یافتہ شخص تعلیم کی مدد سے اپنے ساتھ انصاف نہ کر سکا ،اس کو اپنی تعلیم پر نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ اگر اساتذہ اکرام سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں تو ان کو سب سے پہلے اپنے ساتھ انصاف کرنا ہو گا، رزق حلال کما کر کھانا ہی سب سے پہلا اور بڑا انصاف ہے جب رزق حلال کمایا تو بچوں کے ساتھ بچوں کو تعلیم دینے میں بھی انصاف ممکن ہو گا، اپنے ساتھ انصاف کرنے کے لئے بھی احساس کی ضرورت ہے تو تعلیم کی بدولت احساس پیدا ہونا بھی لازمی ہے کیونکہ بقول شاعر؎
علم آتا ہے تو القاب بھی آ جاتے ہیں
زندگی جینے کے آداب بھی آ جاتے ہیں
سب سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد کا ضمیر زندہ ہونا ،ان کے اندر اپنے لئے احساس ہونا اور پھر دوسروں کے لئے احساس پیدا ہونا لازمی ہے اور جب ضمیر زندہ ہو گا، احساس ہو گا اور تب ہی انصاف بھی ہو گا ۔ دعا ہےا ﷲ تعالیٰ ہر تعلیم یافتہ خاص کر اساتذہ ٔکرام کو اپنے ساتھ پورا پورا انصاف کرنے کی ہمت سوچ اور توفیق بخشے۔آمین
(رابطہ۔ : 9906241250)