مسابقت کے نام پر بچوں کا بچپن دائو پر نہ لگائیں غور طلب

شبنم مجید بٹ ،بارہمولہ

موجودہ دور جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ،ہر انسان زندگی کی ترقی کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں ،وقت جیسےپَر لگا کر اُڑ رہا ہے وہیں، اس تیز رفتاری کا اثر ہمارے بچوں پر بھی پڑ رہا ہے ۔بچوں کو معیاری تعلیم دینے اور مسابقت کے نام پر اُنکا بچپن برباد کیا جارہاہے ۔اسکول جانا،وہاں سے آکر پھر ٹیوشن اور اس کے بعد ہوم ورک ،اس سختی نے ہمارے بچوں سے اُنکا بچپن چھین لیا ہے ۔گزرے وقت میں بچوں کا نصف دن تو کھیل کود میں گزرتا تھا ۔جسمانی ورزش کے سبب انکی نشو و نما بھی بہترین انداز سے ہوتی تھی ۔کڑی دھوپ اور جاڑے کی سردی میں باہر کھیلتے رہنے کے باعث اُنکی قوتِ مدافعت بھی بڑی مضبوط ہوجاتی تھی، لیکن آج کے دور میں والدین اپنے بچوں کی تفریح اور نام نہاد ورزش بھی گھروں میں برقی آلات کے ذریعے کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ آلات مختلف طرح کے ہوتے ہیں جیسے ویڈیو گیمز ،موبائیل فون،لیپ ٹاپ وغیرہ ۔ان چیزوں کے استعمال سے بچّے کی صحت اور نفسیات کو بھی بُری طرح متاثر کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اسی فیصد والدین اپنے بچوں کو فارغ وقت میں مصروف رکھنے کیلئے اور اُنکی شرارتوں سے بچنے کیلئے کوئی کارٹون فلم خود مصروفِ عمل ہوجاتے ہیں ۔یہ کارٹون فلمز کس طرح سے ہمارے بچوں کے ذہن پر اثر انداز ہوتیں ہیں، اس بات کو ہم بالکل نظر انداز کردیتے ہیں ۔ہمیں یہ درکار ہوتا ہے کہ بچہ اپنی شرارتوں سے ہمارے معمولات کو متاثر نہ کرے،گھر سے باہر برُی صحبت سے بچانے کے لئے ہمارے پاس یہ ایک ذریعہ ہے کہ بچہ کارٹون فلم میں مگن ہوکر باہری دنیا سے دور رہے۔اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ بچہ گيلی مٹّی کی مانند ہوتا ہے ۔اس کو جس سانچے میں ڈھالا جائے اُسی میں ڈھل جائے گا ۔پھر اپنے بچّے کی تربیت اور اُسکی نشو و نما میں ہم اس قدر لا پرواہی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ کارٹون پروگرامز کا بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات کے ساتھ ساتھ کچھ مثبت اثرات یعنی بھی مرتب ہوتے ہیں مگر وہ صرف اور صرف والدین پر منحصر ہے کہ وہ اپنے بچّے کے ذہن و فکر پر کونسا اثر پڑنے دیں گے ۔چند مشہور کارٹون پروگرامز جو لگ بھگ ہمارے سبھی گھروں میں بچّے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں ۔ ان سارے کارٹون پروگرامز کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ان کے ذریعے ہمارے بچوں کے ذہن کو جادو ،اخلاقی گراوٹ اور دیگر آلائشوں سے آلودہ کرنا مقصود ہے ۔ان پروگرامز کے ذریعے غیر اسلامی نظریات اور افکار ہمارے بچوں کے ذہن پر نقش ہورہے ہیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ ایسے پروگرامز بھی ٹی وی چینلز پر چلتے ہیں ،جن کو دیکھ کر ہمارے بچّے حقیقی دُنیا سے دور خیالی دنیا( fantasy world )میں جینا شروع کردیتے ہیں ۔وہ اکثر بیشتر غائب دماغ رہتے ہیں جسکی وجہ سے پھر انکے اساتذہ کو بھی اکثر اُن سے شکایت رہتی ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب بچّے کا حقیقی دنیا سے سامنا کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ پریکٹیکل دُنیا کو اپنی خیالوں بھری دنیا کے بالکل برعکس پاتا ہے اور نتیجتاً ڈپریشن میں چلا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ یہ پروگرامز ہمارے بچوں کی اخلاقیات اور اُنکی زبان پر بھی بری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں ۔بچّے اکثر اپنے پسندیدہ کارٹون کردار کی نقل شروع کرکے نہ صرف اُسکی حرکات و سکنات کو دہرانے کی مشق کرتے رہتے ہیں جو اکثر نا شائستہ اور تہذیب کے عنصر سے عاری ہوتے ہیں اور پھر بچّے اُسی زبان میں بول چال بھی شروع کردیتے ہیں ۔اسکے بر عکس اگر ہم اپنے بچوں کو ایسے کارٹون پروگرامز دیکھنے کی ترغیب دیں جنکے ذریعے اُنکی تفریح ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا درس بھی ملے،اُن کی زبان بھی معیاری اور سوچ تعمیری بن جائیں تو کتنا بہتر ہوتا۔بہت سی ایسی کارٹون سیریز بھی چلتی ہیں جو والدین کی اس کسوٹی پر پورا اُتر سکتی ہیں، جیسے ’’عبدل الباری کارٹون سیریز‘‘ ، ’’کنیز فاطمہ کارٹون پروگرام‘‘، ” dora the explorer” وغیرہ ۔یہ کچھ پروگرامز ہم اپنے بچّے کی تفریح کی خاطر خود بھی اُنکے ساتھ دیکھ کر اُن کی مثبت اور تعمیری سوچ کو اُبھارنے میں مدد کرسکتے ہیں ۔ والدین پر لازم ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ بچوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کریں۔
[email protected]