علم کی اہمیت و ضرورت قرآن کی روشنی میں

شیخ ولی محمد
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات میں جب آدم ؑ کی تخلیق کی تو اس کی ضرورت کے لیے مختلف چیزیں مہیا رکھیں ۔ تاہم ان سبھی اشیاء اور چیزوں میں جو بے نظیرنعمت آدم کو عطا کی گئی وہ علم کی نعمت ہے ۔ علم کی اسی صفت کی بناء پر وہ دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز نظر آتاہے ۔ سورہ البقرہ میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : (ترجمہ) : اور یاد کرو ! تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا : ’’ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ فرشتوں نے کہا: ’’ کیا تو زمین میں اُسے ( خلیفہ) بنارہا ہے جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا اور ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس تو کرہی رہے ہیں!‘‘  اﷲ نے فرمایا: ’’ میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔ اور اﷲ نے آدم کو سب نام سکھائے ، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا : ’’ مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو‘‘۔ فرشتوں نے کہا: ’’ پاک و برتر ہے تو ، ہمیں کوئی علم نہیں بجز اس کے جو تو نے ہمیں بخشا ہے یقیناً تو ہی سب کچھ جاننے والا اور حکیم و دانا ہے‘‘۔ اﷲ نے کہا: ’’ اے آدم ! انہیں ان کے نام بتاؤ‘‘۔ تو جب آدم نے فرشتوں کو ان کے نام بتادیے تو اﷲ نے ( فرشتوں سے ) فرمایا :  ’’کیا میں نے تم سے  نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی ( سب ) پوشیدہ چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کررہے ہو، اُسے بھی جانتا ہوں اور جو چُھپا رہے ہو اُسے بھی ‘‘۔
معروف مفسر قرآن اور داعی اسلام سید قطب اپنی تفسیر’’ فی ظلال القرآن‘‘ میںان آیات میں ’’ علمِ اسماء کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ ہم آج بصیرت کی آنکھ سے اس منظر کی کچھ جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں جس کا فرشتوں نے ملا اعلیٰ میں مشاہدہ کیا۔ ہم اس عظیم خدائی راز کو جسے خدا نے انسان کو خلافت ارضی کی کنجیاں سونپتے وقت انسان میں و دیعت کیا تھا ، کچھ کچھ سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ ہے چیزوں کے نام رکھنے کے رمز پر انسانی قدرت کا راز ! اشخاص اور اشیاء کو اپنے ناموں سے مسمیٰ کرنے کا راز جو اِن اشخاص اور اشیاء کے لیے علامت ورمز ہوں اور جو زبان سے بولے جانے والے الفاظ ہوں ۔ یہ چیز زمین پر انسان کی زندگی میں عظیم قدروقیمت کی حامل ہے ۔ اس کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ ہم اس وقت کرسکتے ہیں جب ہم یہ سوچیں کہ اگر انسان میں چیزوں کا نام رکھنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو کتنی زیادہ دشواری ہوتی اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کرکام کرنے میںکتنی زحمت پیش آتی ۔ ہر شخص جو دوسرے شخص کو کسی چیز کے بار ے میں کچھ بتانا اور سمجھانا چاہتا وہ اس کا محتاج ہوتا کہ خود اس چیز کو اس کے سامنے حاضر کرے ۔ مثلاً کھجور کے درخت کے بارے میں کسی سے کچھ کہنا ہوتا تو کھجور کا درخت اس کے سامنے لانا ہوتا ۔ پہاڑ کے بارے میں کچھ بتانا ہوتا تو خود پہاڑ کے پاس جانا ہوتا ۔ کسی شخص کے بارے میں کچھ کہنا ہوتا تو اس وقت تک بات کو سمجھنا ممکن نہ ہوتا جب تک اس شخص کو بُلانہ لیا جاتا ۔ کتنی عظیم مشقت تھی جس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی اپنے راستے پر رواں دواں نہ ہوتی اگر اﷲ تعالیٰ انسان کے اندر چیزوں کے نام رکھنے کی صلاحیت و دیعت نہ کرتا۔
سید حامد علی مرحوم ’’ علم اسماء‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہے ۔’’ اسماء‘‘ اسم کی جمع ہے ’’اسم ‘‘ اور ’’ اَسماء‘‘ کا استعمال نام کے لیے بھی ہوتا ہے اور صفات کے لیے بھی۔ قرآن مجید اور احادیث رسول ؐ میں اﷲ کے ’’ اسمائے حسنیٰ‘‘ کا استعمال اﷲ کی ’’ بہترین صفات‘‘ ہی کے لیے ہوا ہے ۔ اس آیت میں ’’ اَسماء‘‘ کے معنیٰ ناموں اور علامتوں کے بھی ہیں اور صفات کے بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان نے جب اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا تو اﷲ کے توفیق و تعلیم سے وہ چیزوں کے نام ، علامات اور صفات ہی کو جان سکا تھا اور آج بھی جبکہ توفیق ایزدی سے انسان کا علم ارتقاء کے بے شمار مراحل طے کرچکا ہے اس کا سارا علم چیزوں کے ناموں ،علامتوں ، خاصیتوں اور صفات ہی تک محدود ہے ۔ اشیاء کی حقیقتوںسے وہ پہلے بھی بے خبر تھا اور آج بھی بے خبر ہے ۔ انسان کا یہ عظیم سرمایہ علم جو صرف ’’ علم اسماء‘‘ ہے انسان کے لیے خاص ہے دوسری مخلوقات کو یہ علم حاصل نہیں اور نہ اُن میں اسے حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔
ٍ اس تاریخی قرآنی واقعہ کے بارے میں معروف عالم دین مولانا خفظ الرحمان عمری مدنی فرماتے ہیں کہ ’’ حضرت آدم جو اس سر زمین کے سب سے پہلے انسان تھے انہیں فرشتوں کے مقابلے میں پیش کرنے سے قبل اﷲ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسے علم سے آراستہ کیا جس سے ملائکہ محروم تھے اب ہمارا کام ہے کہ ہم سو چیں کہ یہ کون سا علم ہوسکتا ہے ۔ احکام ، عبادات اور حلال و حرام کے مسائل کا علم تو نہیں ہوسکتا کیونکہ ملائکہ ایسے علم سے اور اطاعت و معصیت کی پوری تعلیم سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ آدم کا علم ان کے اس علم سے مختلف تھا ۔ آدم کو کیا سکھایا گیا اس سلسلے میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں ۔ لیکن اس پر تو اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ زمین پر ایک نو وارد کونئی زندگی شروع کرنے کے لیے معاش ، معیشت ، معاشرت ، بھوک ، پیاس ، لباس ، پوشاک ، سرووگرم اور رہن سہن کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کی تعلیم ضرور شامل ہوگی ۔کیونکہ زمین پر ان کو خلیفہ بناکر بھیجنا طے تھا ۔ پھر جیسے جیسے مسائل بڑھتے گئے وقت ضرورت ان کا حل بھی بتایا جاتا رہا‘‘۔
تخلیق آدم کے بعد اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انہیں مختلف صلاحیتوں سے نوازا ۔ کائنات کی دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو قوت گویائی عطا کی ۔  وعلمہ البیان ’’ اور ہم نے اسے بولنا سکھایا ( الّرحمن :  ۲ )
بولناوہ امتیازی وصف ہے جو انسان کو حیوانات اور دوسری ارضی مخلوقات سے ممیز کرتا ہے ۔ اﷲ نے انسان کو وہ ذرائع عطا کیے جن سے وہ علم حاصل کرتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ’’ اور تم کو کان دئیے اور آنکھیں دیں اور دل دئیے ‘‘ ۔
قوت سماعت اور بصارت کے ذریعے ہی کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہے اور دل حاصل شدہ معلومات کو مرتب کرکے ان سے نتائج نکال سکتا ہے ۔ انسانی تاریخ کے طویل سفر پر جب نظر ڈالی جائے تو حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خالق کائنات نے انسان کی ہدایات کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف مقامات پر زمان و مکان کے تقاضات کے مطابق انبیائے کرام مبعوث فرمائے ۔ جنہوں نے انسانوں تک اﷲ کا ہدایات نامہ پہنچایا ۔ قرآنی تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان انبیائے کرام کو اﷲ تعالیٰ نے مختلف قسم کے غیر معمولی علوم سے نواز تھا ۔ جیسے حضرت ادریسؑ کو درس و تدریس کی صفت سے نواز اگیا تھا ۔ حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ نے کعبتہ اﷲ کی مضبوط بنیاد رکھ کر دیوار یں بلند کیں اسطرح ان دونوں کو فن تعمیر کا مکمل علم حاصل تھا ۔ سر زمین مصر میں حضرت یوسف ؑ کو   خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کرکے انہیں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا گُر سکھایا گیا ۔ حضرت خضر ؑ کے پاس ایسی علمی صلاحیت تھی جسکی بنیاد پر حضرت موسی ؑجیسے اولوالعزم پیغمبر کو ان سے علم سیکھنے کا حکم دیا گیا ۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ؑ کو مختلف نوع کے علوم وفنون ، صنعت و حرفت ، ایجاد و اختراع اور تسخیر کی قوت و مہارت دی گئی تھی ۔