سرمائی تعطیلات کے بعدسکول چلیں ہم

خورشید ریشی

سرمائی تعطیلات کے بعد کل طلبہ و طالبات اسکولوں کا رخ کرلیا۔ہر طرف رونق اور چہل پہل دیکھنے کو ملی۔رنگارنگ وردی میں ملبوس طلبہ و طالبات اپنے گھروں سے نکل کر اپنے اپنے تعلیمی اداروں کی طرف روانہ ہوئے۔اسکول وہ جگہ ہے جہاں پر بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ہوتی ہے اور بچے اپنے دوستوں اور اساتذہ کرام سے مل کر ایک الگ ہی خوشی محسوس کرتے ہیں اور جہاں ایک طرف والدین کو سرمائی تعطیلات کے ختم ہونے کا بے صبری سے انتظار ہوتا ہے کیونکہ سرمائی تعطیلات کے دوران ہی والدین کو اساتذہ کرام کی عظمت کا احساس ہوتا ہے کیونکہ بچے دو تین مہینوں میں الگ الگ انداز سے والدین کو پریشان کرتے ہیں یہ اساتذہ کرام ہی ہوتے ہیں جو مختلف مزاج رکھنے والے بچوں کو دوستانہ اور خوشگوار ماحول میں ایک ہی لڑی میں پروتے ہیں اور انکی ذہنی اور جسمانی نشوونما کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف اساتذہ کرام کو بھی بے صبری سے اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں ان طلبہ و طالبات کا انتظار ہوتا ہے جن کو یہ اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں اور ان کی کردار سازی کرتے ہیں۔
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
اسکول صرف چار دیواری کا نام نہیں ہے بلکہ یہاں پر ایک بچے کے اندر چُھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کیا جاتا ہے یہاں اساتذہ کرام جدید طریقوں کو اپناتے ہوئے اور نصابی کتابوں کو پڑھاتے ہوئے طلبہ و طالبات کو اخلاق سازی کا بھی درس دیتے ہیں اور طلبہ و طالبات کو مختلف پلیٹ فارم مہیا کرکے انکی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا کام کیا جاتا ہے اور بچوں کے ساتھ خوشگوار ماحول اور کھیل کھیل میں درس و تدریس کی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ طلبہ و طالبات کو اسکول جانے کے لیے بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔
تو سمجھتا کیا اے غافل مدرسہ کیا نام ہے اصلیت اس کی سمجھنا عاقلوں کا کام ہے یہ نہ سمجھو اینٹ گارے سے بنی ہے جھونپڑی یہ وہ ایواں ہے کہ جس کا عرشِ اعظم پر بام ہے
سرمائی تعطیلات کے بعد طلبہ و طالبات اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے اساتذہ کرام سے مل کر ایک الگ ہی خوشی محسوس کرتے ہیں اور تمام باتوں کو چھوڑ کر ایک نئے ماحول میں درس و تدریس کی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہیں۔اور ہر ایک طالب علم امتحان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اچھے نمبرات حاصل کرکے کامیابی کی دہلیز کو چھونا چاہتا ہے۔نئے تعلیمی سال کے شروعات میں ہی جب بچے امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں، وہیں والدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا ساتھ دیں اور ان کو آگے بڑھنے کے لئے جہاں وہ ہر ایک چیز میسر رکھتے ہیں لیکن بچوں کو ان چیزوں مثلا کاپی، پنسل کے علاوہ والدین کا وقت بھی چاہئیے تاکہ وہ ان کے ساتھ وقت گزار کر خوشی محسوس کریں اور ساتھ ساتھ والدین انکو درس و تدریس میں بھی رہبری کریں اور انکی صحیح معنوں میں تربیت کرکے انکے لئے آگے کا راستہ آسان کریں انکے اندر کتابوں کی محبت اور الیکٹرانک چیزوں سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب دیں یہ تبھی ممکن ہے جب والدین خود اپنے بچوں کے سامنے موبائل فون اور ٹیلی ویژن کے بجائے کتاب یا اخبار ہاتھ میں لے کر اس کا مطالعہ کریں ظاہر سی بات ہے اس کا اثر بچے پر پڑے گا اور وہ بھی کتاب ہاتھ میں لے کر اس کے اوراق الٹ پھیر کرنے کی کوشش کرے گا اور آہستہ آہستہ اس کے اندر کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا۔ہر نئے سال کے شروع ہوتے ہی والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے ایک روڑ میپ تیار کریں اور اس پر عملدرآمد کے لئے اسکولوں کا رخ کریں اور اساتذہ کرام سے اپنے بچوں کی کارکردگی پر بات کرکے ایک تو بچے کی حوصلہ افزائی ہوگی دوسرا یہ کہ والدین نے اپنے بچوں کے لئے جو خواب دیکھیں ہیں ان کو شرمندہ تعبیر کرنے میں آسانی ہوگی۔لیکن اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی لازمی ہے اور بچے زیادہ وقت کس کے ساتھ گزارتے ہیں اس بات کا بھی علم رکھیں اور اپنے بچوں کی ہر ایک سرگرمی پر نظر رکھیں۔
(شاٹھ گنڈ پائین ماور)
[email protected]>