نئے تعلیمی سال کا آغاز اور ہماری ذمہ داریاں میری بات

سید مصطفیٰ احمد ۔بمنہ، بڈگام

یکم اپریل سے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوچکا ہے۔ طلبہ کے علاوہ اساتذہ بھی درس و تدریس کے نیک کاموں میں مصروف ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ مختلف کتب فروشوں سے خریداری کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ چھوٹے بچوں کو سکول تک لے جانے اور سکول سے واپس لانے میں والدین سرگرم عمل ہیں۔ ہاں! یہ خوش آئند قدم ہے کہ والدین تعلیم کے معاملے میں اتنی دلچسپیاں لیتے ہیں۔ جیسے کہ پرانے مضامین میں بھی اس بات پر روز دیا گیا ہے کہ کیسے تعلیم قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔ لگ بھگ تین ہفتوں سے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کی سرگرمیاں زوروں پر جاری ہیںاور اساتذہ اور دوسرا عملہ اپنے فرائض خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ نئے ولولے اور نئی امنگوں کے ساتھ نئے تعلیمی سال کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس تعلیمی سال سے ہم نے کون کون سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، کچھ کا ذکر درج ذیل سطروں میں کیا جارہا ہے۔
پہلے امید ہے تعلیم برائے روزگار:۔ کچھ دنوں پہلے ہندوستان کے مؤقّر اخبارات میں ہندوستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں پائی جانے والی بے روزگاری کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ اقوام متحدہ کی اس تنظیم کی تحقیقات ہمارے لئے جاگ جاگنے کا الارم ہےکہ ہم تعلیم کے نام پر اور بے روزگاری کو برداشت کرنے کی تاب نہیں لاسکتے ہیں۔ جب ہندوستان کا Demographic Dividend ہی بے کار بیٹھا ہے، تب ہم ملک کی حقیقی ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتے ہیں۔اس لئے یہ اہم ہوجاتا ہے کہ تعلیم کا زیادہ دھیان روزگار پر مرکوز ہو۔ دوسرا ہے اخلاقیات کی ترویج:۔ آج کے بیشتر طلبہ اخلاقیات کے نچلے پائیدان پر براجمان ہوگئے ہیں۔ جھوٹ، غیبت، نفرت، گالی گلوچ، حسدوغیرہ جیسے خرافات طلبہ و طالبات کے درمیان دَر آئی ہیں اور ان غیر انسانی خصائل کی جگہ ہمدردی، وفاداری، دیانتداری، حوصلہ افزائی، شائستگی، سچ، خلوص، وغیرہ انسانی اقدار کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے طلاب ایک دوسرے کے علاوہ اپنے اساتذہ کے ساتھ بھی بداخلاقی سے پیش آتے ہیں اور اس غیر اخلاقی رویے پر فخر کرتے ہیں۔ جو علم بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے پیار نہ سکھائے، وہ تعلیم ناقص ہے اور اس تعلیم کو تبدیلیوں کے دور سے گزارنے کی اشد ضروری ہے۔ تیسرا ہے قوم کی رہبری:۔ ہم سب یہ امید لگائے ہوئے بیٹھے ہیں کہ آنے والے کل میں ایسے طلاب پیدا ہونگے جو اپنی قوم کی رہبری کرنا جانتے ہوں۔ اُن کے اندر وہ اوصاف پائے جاتے ہو، جو ایک ملک یا قوم کی ترقی میں کلیدی رول ادا کرسکتےہیں۔ برداشت، دور اندیشی، احتساب، نرمی وغیرہ جیسے اوصاف ہمارے بچوں میں پیدا کرنا نئے تعلیمی سال کا اور آنے والے تعلیمی سالوں کا بھی بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ جب ایک لیڈر پیدا ہوتا ہے تو قوم کی ناؤ خود بہ خود بھنور سے نکل کر ساحل پر آکر رُک جاتی ہے۔ ہم سب بھی ایک ایسے لیڈر کی کھوج میں ہیں جو ہماری بگڑی ہوئی قسمت کو پھر سے سنوارے۔ چوتھی ہے پورے قوم کی بھلائی:۔ طلاب کو چاہئے کہ وہ سماج کے پسماندہ لوگوں کی طرف زیادہ توجہ دیں، جب خدا ان کے خوابوں کو پورا کرے گا۔ ہمارے سماج میں ہر آن کسی مفلس کا خواب چکنا چور ہوجاتا ہے۔ امیروں اور غرباء کے خوابوں میں زیادہ فرق نہیں ہیں، لیکن بے چارے غرباء اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی کوششوں میں موت کے منہ میں ہی چلے جاتے ہیں اور اُن کے خواب ، بس خواب ہی رہتے ہیں۔ ان کے خوابوں کی تعبیر کرنا طلاب کی ہی ذمہ داری ہے۔ پانچویں اور آخری بات ہے کہ تعلیم خودکشی کا باعث نہ بنے:۔ اخباری ذرائع کے مطابق ہر سال ہندوستان میں لگ بھگ دس ہزار سے زیادہ زیر تعلیم بچے خودکشی کرتے ہیں۔ ہر دن بیس سے زیادہ بچے موت کو گلے لگاتے ہیں۔ لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ تعلیم اب برائے تعمیر ِزندگی ہو نہ کہ برائے خودکشی۔ ایک بچے کی خودکشی پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے کیونکہ اس سے نسلوں کی نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو مندرجہ بالا ذمہ داریاں دُور کے ڈھول سہانے کے مترادف لگتے ہیں، کے مانند ایک خواب کی طرح لگتے ہیں۔ لیکن اُمید رکھنا کوئی جرم نہیں ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ دنیا اُمید پر قائم ہے، اِسی طرح ہم امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس سال کے علاوہ اگلے تعلیمی برسوں میں بھی ایسا نظام تعلیم ہمارے سامنے آئےگا، جو ہمارے ملک کے لئے باعث رحمت ہو۔ سب سے بڑا کام جو اس ضمن میں کیا جانا چاہیے، وہ یہ ہے کہ طلاب کو زندگی جینے کے اصول سکھائے جانے چاہئیں۔ جس دن ایک طالب علم کو زندگی جینے کا ڈھنگ سمجھ میں آگیا، اُس دن ہم اپنے تعلیمی نظام سے بہترین کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ تعلیم انسان بناتی ہے، لیکن اگر تعلیم مصیبت کی گھڑیوں میں ساتھ نہ دے، تو ایسی تعلیم کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔ تعلیم سے روح کو تسکین ملتی ہے، لیکن پیٹ بھرنے کے لئے کھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جو چیز کھانے، پینے اور ہوا سے زیادہ ضروری ہے وہ ہے اُمید۔ اگر انسان ناامید ہوجاتا ہے تو دس سیکنڈ تک وہ جی سکتا ہے اور اس کے بعد اس انسان کی موت پکی ہے۔ اس لئے ایک طالب علم کو زندگی کی خار دار جھاڑیوں سے پہلے ہی گزارنا چاہیے تاکہ وہ اپنے پیروں پر خود کھڑا ہوسکے۔ لاٹھی اور لوگوں کے سہارے جھوٹے سہارے ہیں۔ اس دنیا میں کوئی کسی کا ہم نفس اور ہم نوا نہیں ہے۔ یہ زندگی تنہائیوں کا کھیل ہیں، اس حقیقت کا ادراک طلبہ کو پہلے دن سے ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ سماج کے ہر فرد کو نظام تعلیم میں دلچسپی لینی ہوگی۔ اَن پڑھ سے لے کر پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے بچے اور سماج کے پسماندہ لوگوں کی فکر کرتے ہوئے تعلیم کے معیار کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ان بچوں کا بھی خیال کرنا ہوگا ، جو کتابوں سے محروم اور ماہانہ فیس جمع کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کو اعلیٰ کتابوں سے روشناس کرانے کی بھرپور کوششیں کرنا بھی ہم سب کا اولین فرض ہونا چاہیے۔ سماج ہم سے ہے، سماج ایک زندہ جاوید شئے ہے، اس کی ڈور ہمارے ہاتھوں میں ہے، اس کو ترقی کی معراج پر پہچاننا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارا بہت قیمتی وقت ضائع ہوچکا ہے، ہم اور وقت ضائع کرنے کی تاب نہیں لاسکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں جس میں سارے چیزیں برقی رَو پر کام کرنے لگی ہے، ہم کو بھی چاہئے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ ترین کی کھوج میں نکل پڑیں۔
(رابطہ۔9103916455)
[email protected]