ایمبولنس گاڑیوں کو وقت پرجگہ دیکرقیمتی جانیں بچانے کی سوچ ختم! موٹر وہیکلز ایکٹ بالائے تاک،عملدر آمد کرنے والی ایجنسی کا رول منفی، شہری احساس دم توڑ چکا

پرویز احمد

سرینگر //وادی کے بڑے ہسپتال شہر سرینگر میں واقع ہیں لہٰذا دور دراز علاقوں سے نازک مریضوں کو ایمبولنس گاڑیوں کے ذریعہ ان ہسپتالوں میں منتقل کئے جاتے ہیں۔ سکمز صورہ اور بمنہ،لل دید، صدر،برزلہ اوربچوں کے ہسپتال میں اوسطاً ہر روز 5مریضوں کو مختلف اضلاع سے ہنگامی نوعیت میں منتقل کیا جاتا ہے۔اسکے علاوہ مختلف نوعیت کے حادثات میں زخمی ہونے والوں کو بھی لگاتار سرینگر کے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق وادی کے دور دراز علاقوں سے ہر سال 60ہزار سے زائد مریضوں کو سرینگر کے مختلف ہسپتالوں تک پہنچانے کیلئے ایمبولنس گاڑیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔لیکن کشمیری عوام میں شہری احساس کے فقدان کی وجہ سے اکثر و بیشتر ایمبولند گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنس جاتی ہیں اور آج تک کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں عوامی غفلت کی وجہ سے انتہائی نازک مریضوں کی جان چلی گئی ہے۔وادی کے مختلف علاقوں سے ایمبولنس گاڑیوں کے ذریعہ مریضوں کو شہر سرینگر میں منتقل کرنا پڑتا ہے اور یہ عمل ہر روز جاری رہتا ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ شہری احساس نہ ہونے کی وجہ سے ایمبولنس گاڑیوں کو جگہ نہیں دی جاتی ہے اور وہ دیگر گاڑیوں کی طرح ٹریفک جام میں پھنس جاتی ہیں۔حالانکہ بھارت میں یہ قانون ہے کہ ہنگامی گاڑیوں کو آسانی کیساتھ گزرنے کی اجازت دی جانی چاہیے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سزا اور جرمانہ کی بات کہی گئی ہے۔1988 کے موٹر وہیکلز ایکٹ میں 2019 کی ترمیم کی گئی اس میں ایمرجنسی گاڑیوں میں رکاوٹ ڈالنے پر سزا کا بندوبست کیا گیاہے۔ لہذا سیکشن 194E کے تحت ایمبولینس میں رکاوٹ پیدا کرنے پر 6 ماہ قید اور 10 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا ہے۔اس قانون میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی شخص گاڑی چلاتے ہوئے سڑک کے کنارے، فائر سروس یا ایمبولینس یا دوسری ہنگامی گاڑی کو جگہ دینے میں کوتاہی کا مرتکب ہوگا،اسے جرمانہ اور سزا دونوں دیئے جاسکتے ہیں۔محکمہ صحت نے 18فروری 2024کو اپنے ایک سرکیولرکے ذریعے عوام کو بتایا کہ محکمہ ٹریفک پولیس کے ساتھ ملکر ایمبولنس گاڑیوں کو ترجیحات دیگر انکے لئے راستہ فراہم کریں۔ٹریفک پولیس کئی مقامات پر ایمبولنس گاڑیوں کو ترجیحات سمجھ کر آگے جانے کی اجازت دیتا ہے لیکن ایمبولنس گاڑیوں کو ترجیح بنیادوں پر راستہ دینے میں عوامی کی غفلت شعاری ، سرینگر کی تنگ سڑکیں اور کئی اہم چوراہوں پر ٹریفک جام رکاوٹ کی بڑی وجہ بن گئی ہے۔جنوبی کشمیر کے نازک مریضوں کو سرینگرکے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کرنے میں ایمبولنس ڈرائیوروں کو پانپور، پانتہ چھوک، سونہ وار، ڈلگیٹ ، لال چوک، جہانگیر چوک، کرن نگر چوک میں ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مریضوں کو سکمز صورہ تک پہنچانے کیلئے پانپور، پانتہ چھوک، سونہ وار، ڈلگیٹ اور بعد میں شہر خاص کی تنگ سڑکوں میں خانیار، نوہٹہ، راجوری کدل، حول اور دیگر مقامات پر ٹریفک جام کا سامنا ہوتا ہے۔ شمالی اور وسطی کشمیر سے منتقل ہونے والے مریضوں کو سنگرامہ، تاپر، چھورا، پٹن،قمرواری،شالہ ٹینگ،صفا کدل، اور دیگر مقامات پر ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح نوگام بائی پاس چوک،صنعت نگر، بمنہ کراسنگ،چھانہ پورہ،نٹی پورہ، بٹہ مالو،کاکہ سرائے، بر بر شاہ،نالہ مار روڑ، خانیار چوک، گوجوارہ اور دیگر کئی ایسے مقامات ہیں جہاں بدترین ٹریفک جام رہتا ہے اور اگر کوئی ایمبولنس اس میں پھنس جاتی ہے تو ٹریفک عملہ بھی ہاتھ کھڑے کردیتا ہے کیونکہ ایمبولنس کو جگہ دینے کیلئے پرائیویٹ گاڑیاں چلانے والے گونگے بن جاتے ہیں یا انہوں نے روئی کانوں میں ٹھونسی ہوئی ہوتی ہے۔اس حوالے سے اگر دہلی یا دیگر بڑے شہروں کی بات کی جائے و ایمبولنس گاڑیوں کو پہلے جگہ دی جاتی ہے اور اس بات کا احساس اجا گر ہوا ہے کہ ایمبولنس کو جگہ دیکر قیمتی جان بچائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس تناظر میں شہر سرینگر یا وادی کے دیگر علاقوں میں پائی جارہی عوامی بے حسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ایک ایمبولنس ڈرائیور نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ’’مختلف مقامات پر ٹریفک جام ، تنگ گلیوں کے علاوہ کشمیر ی عوامی میں انسانی جانوں کو بچانے کا جذبہ ختم ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے گاڑیوں میں سوار لوگ ایمبولنس کو راستہ فراہم نہیں کرتے بلکہ ایمبولنس گاڑیوں کو ڈھال بنا کر تیزی سے نکل جاتے ہیں۔ مذکورہ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کے 18جنوری کے سرکیولر اور ٹریفک پولیس کے ساتھ تال میل سے کچھ آسانی ہوئی ہے مگر ہم ابھی بھی ایمرجنسی کیسوں کو صحیح وقت پر ہسپتال پہنچانے سے قاصر ہیں‘‘۔ شعبہ حادثات و ایمرجنسی کے ماہرڈاکٹر عادل احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ہارٹ ایٹک جیسی ایمرجنسی میں مریض کے پاس ہسپتال پہنچانے کیلئے 20منٹ ہوتے ہیں اور ہارٹ اٹیک کا علاج ایک گھنٹے کے اندر اندر ہونا چاہئے کیونکہ پہلے ایک گھنٹے میں مریض کے بچنے کے امکانات 90فیصد ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والے کے پاس بھی محدود وقت ہوتا ہے اور اس لئے ایمبولنس کی ترجیحات بیان کرنے کیلئے ایک خصوصی مہم کی ضرورت ہے جہاں لوگوں کو ایمبولنس کو ترجیح دینے سے ہونے والے فوائد کی جانکاری دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں حادثات میں ہونے والی جانوں کی تلافی کو کم کرنا ہے توایمبولنس گاڑیوں کو ٹریفک نظام کے تحت فوقیت دینی ہونگی۔
اعدادوشمار
102/108 مفت ایمبولنس سروسز کے اعداد و شمار کے مطابق وادی کے مختلف اضلاع میں قائم ہسپتالوں سے 64ہزار 882مریضوں کو سرینگر تک پہنچایا گیاہے۔ ان میں اننت ناگ کے 6734، بانڈی پورہ کے 7800، بارہمولہ کے 11589،بڈگام کے 12ہزار 194، گاندربل کے 5513، کولگام میں 3125، کپوارہ کے 7265، پلوامہ میں 7789 جبکہ شوپیان کے 2873مریضوں کو سرینگر منتقل کیا گیا ۔مختلف اضلاع سے منتقل کئے گئے ان مریضوں میں 63ہزار673انتہائی ایمرجنسی کے کیس بھی شامل ہیں۔ ان میں میڈیکل ایمرجنسی کے 41ہزار198، ایمرجنسی زچگی کیس8540،مختلف حادثات میں زخمی ہونے والے 8955،ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والے 1801افراد،خودکشی کی کوشش کرنے والے 1750 اور 1429دیگر ایمرجنسی مریض شامل ہیں۔مختلف ضلع اور سب ضلع ہسپتالوں سے سرینگر منتقل کئے گئے 63ہزار سے زائد مریضوں میں 22904صدر اسپتال،17ہزار293سکمز صورہ، 7959چلڈرن اسپتال بمنہ، 7848لل دید ، 3175بون اینڈ جوائنٹ برزلہ ، 137پی ایچ سی چھانہ پورہ،71رعناواری ہسپتال، 46ڈینٹل ہسپتال ،28سپر سپیشلٹی ہسپتال اور 18مریضوں کو نورہ ہسپتال سرینگر منتقل کیا گیا ہے۔