کہانی :بچوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز | تعلیم اور تربیت کے لئے ایک مفید ذریعہ درس و تدریس

شیخ ولی محمد
بچوں میں کہا نیاں سننے کا شوق بہت ہی پایا جاتا ہے ۔ ان میں قوت تخیل یعنی خیال آرائی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔جب کہانی سنائی جارہی ہو تو بچہ اپنی تمام توجہ کہانی پر مرکوز کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض بچے اپنے گردو پیش کی چیزوں کوتھوڑی دیر کے لئے بھول جاتے ہیں۔بچے تو بچے بڑی عمر کے لوگ بھی اکثر کہانی سننا بہت پسند کرتے ہیں ۔ آخر کیوں ؟ اس کا جواز ہمیں نفسیات کے مطالعے سے مل جاتا ہے ۔ کہانی سننے یا سنانے میں سب سے ضروری چیز کسی دوسرے کے جذبات و افعال کو اپنا نا ہے ۔ کہانی سننے میں بچہ کہانی کے افراد سے اپنا موازنہ کرتاہے ۔ چنانچہ کہانی سنتے ہوئے بچہ اپنی شخصیت کو کہانی کے اہم افراد کی شخصیتوں میں بدلتا رہتا ہے۔ کہتے ہیں نیولین کو بچپن میں بہادروں کی اور جنگ و جدال کی کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا اور اکثر وہ بچپن میں ایسے کھیل کھیلتا جن میں جرنیل بنتا اور لڑائی کے مناظر دہراتا ۔ چنانچہ جب وہ بڑا ہوا تو ایک نہایت مشہور جرنیل ثابت ہوا۔ بچوں کا کہانیوں میں دلچسپی لینا اس بات کی دلیل ہے کہ بچہ کہانی کے افراد کی شخصیتوںکو اپنی شخصیت میں مدغم کردیتا ہے اور جو کام وہ کرتے ہیں، انہیں اپنے ہی کام خیال کرتا ہے اور خیالات کی پرواز سے اس بات میں مدد دیتی رہتی ہے ۔
مدرسہ جدید کی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے معروف ماہر تعلیم خواجہ غلام السیدین کا کہنا ہے کہ’’ مدرسہ جدید میں بچے کی دلچسپی کے لیے کہانیوں کا بڑا اہم رول ہے ۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’ اصول تعلیم‘‘ میں رقمطراز ہیں:’’ بچوں کی فطرتاً کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے اور ہر گھر میں ماں یا بہن چھوٹے بچوں کو کہانی سناتی ہیں ۔ جب بچہ کسی ایسے مدرسہ میں داخل ہوتا ہے جو معقول تعلیمی اصولوں پر چلایا جارہا ہے۔ تو معلم اس شوق کو تعلیم کا محور بناکر اسے طرح طرح کی دل چسپ کہانیاں سناتا ہے جو اس کی معلومات اور رجحانات میں غیر محسوس طور پر وسعت پیدا کرتی ہیں۔ پھر ممکن ہے وہ بجائے زبانی کہانیاں سنانے کے کسی کتاب میں سے کہانیں پڑھ کر سنائے۔ اگر کہانیوں کا انتخاب صحیح اور موزون ہے تو بچے کو یقیناً اسے دل چسپی پیدا ہوگی اور وہ خود انہی کہانیوں کو یا اپنی اپنی بنائی ہوئی کہانیوں کو اپنے ساتھیوں کو سنائے گا اور اس کی بدولت اس کی قوت بیان کی تربیت ہوگی ۔ رفتہ رفتہ اس میں یہ خواہش بھی پیدا ہوگی کہ وہ خود ان کہانیوں کو کتابوں میں پڑھ سکے تاکہ نئی نئی کہانیاں سننے کے لیے وہ اُستاد کا محتاج نہ رہے اور اس کا کہانیوں کا ذخیرہ بہت وسیع ہوجائے لیکن وہ اس خواہش کو اس وقت تک پورا نہیں کرسکتا، جب تک پڑھنا نہ سیکھے ۔ اگر اس کی طلب صادق ہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خود بخود پڑھنے کی طرف مائل ہوگا۔ اس کو زبردستی حروف تہجی اور ان کی ترکیبوں کی دشوار گزار منزلوں میں سے گھسیٹنا نہیں پڑے گا بلکہ وہ اپنی خوشی سے اور محنت کرکے مشکلات پر قابو پائے گا ‘‘ ۔
کہانی اور قصے کی اہمیت کے بارے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں ’’ کہانی کا انداز دل و دماغ میں تاثیر پیدا کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے سے اہمیت دی ہے اور رسولوں کی خبریں اور اہل کفر اور اہل ایمان کی کشمکش کے واقعات ایسے اسلوب میں بیان کیے ہیں جو دلوں میں ثبت ہوجاتے ، شکوک و شبہات کے شکار لوگوں کا شک دور کردیتے ، مستعجب و حیران پھرنے والوں کی رہنمائی کرتے اور ہدایت پاجانے والوں کو مزید ہدایت عطا کرتے ہیں ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مخصوص معانی اور اصولوں کی تفہیم اور ذہن نشین کرنے کے لیے کہانی کے بیان سے کام لیا۔ مثلاً انسان کی خطرات سے نجات میں اخلاص کی تاثیر کا بیان ، جیسے غار والے تین آدمیوں کا قصہ۔ اسی طرح نعمت کے باقی رہنے میں شکر کی تاثیر اور نعمت کے زوال پذیر ہوجانے میں ناشکری کی تاثیر کا بیان جیسے اندھے ، کوڑھی اور کانے کا قصہ ۔ اسی طرح اور بہت سے قصے احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں ‘‘۔ ( رسولؐ اکرم اور تعلیم )
چھوٹے بڑے ہر عمر کے بچوں کو کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے لیکن کہانی سنانے والے استاد کے لئے یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس عمر کے بچوں کو کس قسم کی کہانی سنائی جائے ۔ بچوں کو کہانی سناتے ہوئے عمر کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے ۔ کہانی سنانے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ بچوں کو کس قسم کی کہانی سنائی جائے ۔ جانوروں کی کہانی، انسانوں کی کہانی ،پریوں اور جنوں کی کہانی ، مزاحیہ کہانیاں ، سراغ رسانی کی کہانیاں ، بہادری اور جنگ و لڑائی کی کہا نیاں وغیرہ ۔ عام طور پر بچے اسکول جانے سے گھبراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسکول میں اساتذہ کا تعلیم دینے کا طریقہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کے لئے کو دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اس پر اسکول کے مضامین بھی نہایت خشک قسم کے ہوتے ہیں لیکن اگر یہ یہی سبق کہانی کی صورت میں بچے کے سامنے پیش کیے جائیں تو بچہ ان میں زیادہ دلچسپی لے گا اور اس کی توجہ خود بخود سبق کی طرف مبذول ہوجائے گی۔
ای میل۔[email protected]>