موجودہ تعلیمی نظام William Blake کی نظم "دی سکول بائی" کے تناظر میں

سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ، بڈگام

آج صبح معمول کی طرح میں بچوں کو پڑھانے کی شروعات کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر سے ایک مشہور شاعر William Blake کی ایک نظم ” The school boy” نظروں سے گزری۔ اس نظم کا غور سے مطالعہ کرنے کے بعد میرے ذہن کے دریچے کھل گئے۔ اس نظم میں شاعر ایک طالب علم کی حالت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کیسے موسم بہار کی خوبصورت صبحوں سے متاثر ہوکر وہ بچہ تعریفوں کے ڈھیر لگا دیتا ہے۔ اس کے سامنے قدرت ہر رنگ میں رقص کر رہی تھی۔زندگی جیسے ایک خواب کی مانند تھی۔ مشینوں اور روزمرہ زندگی کی بے چینیوں سے دور ایک ایسا ماحول تھا کہ جینے کو جی کرتا تھا۔ صنعتی انقلاب اور سامراجی نظام سے اوپر اُٹھ کر وہ اس کائنات کی باریکیوں میں کھویا ہوا تھا کہ اس کو اچانک اپنے سکول کی یاد آتی ہے۔ ان خوبصورت لمحات کی ساری چاشنی سکول کی یاد کے ساتھ ہی زائل ہوگئی۔ اس کے ذہن میں mechanical life کی خوفناک تصویر چھانے لگی اور سکول کے تصور سے ہی وہ کانپنے لگا۔ اس نظم میں وہ اپنے والدین اور اس تعلیمی نظام سے مخاطب ہیں جو تعلیم کے نام پر ایک طالب علم کی ingenuity اور critical thinking پر کاری ضربیں لگاتے ہیں۔ اس نظم میں شاعر اصل میں اس آفاقی اصول کی طرف ہمارا دھیان مبذول کروانا چاہتا ہے کہ کیسے لاکھوں تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے نام پر دکھ،درد،افسردگی، ذہنی امراض، وغیرہ جیسی خامیاں پنپ رہی ہیں۔ خدا کی اس وسیع کائنات کا مطالعہ کرنا ہی اصل مقصد زندگی ہے۔ اس کے برعکس تعلیمی اداروں میں تیار کردہ نصاب بچے کے اذہان اور ان کی کلی نشوونما کے منافی ہیں۔ جو نظام طوطی کی طرح چیزوں کو رَٹنے اور ڈرانے دھمکانے پر مبنی ہو ،وہ نظام تعلیم کبھی بھی ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتاہے۔ Blake اساتذہ کو بھی انصاف کے کٹہیرے میں کھڑے کرتے ہوئے ان سے پوچھتا ہے کہ آپ لوگوں کی بے جا سختی اور غیر انسانی رویوں سے ایک طالب علم تعلیم جیسی عبادت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر آزاد ہونا چاہتا ہے۔ ہر بات پر غصہ اور نمبرات پر بے جا زور جیسے کچھ بنیادی باتیں ہیں ،جو شاعر اس نظم کے ذریعہ ہم تک پہچانا چاہتا ہے۔ اُستاد کی ڈراونی آنکھیں اور ہاتھ میں تھامی ہوئی چھڑی کو دیکھ کر بچے کی حالت خراب سے خراب تر ہوجاتی ہے اور اس طرح سے اس ظالمانہ نظام سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس نظم میں شاعر ایک طالب کی تشبیہ اس قید میں بند پڑے ہوئے پرندے کے ساتھ کرتا ہے جو آزاد ہونے کے لیے بے تاب ہے۔ شکاری نے اس پرندے کو ایک بار شکار کرنے کے بجائے پنجرے میں ڈال کر اس کی ہر قسم کی آزادی پر قدغن لگائی ہے۔ اسی طرح سکول میں ایک طالب علم کی آزادیوں پر مختلف قسم کی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں تاکہ وہ Intelligence کو بھول کر مشین بن جائے، جس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا ہے۔

اس نظم میں جن حساس معاملات کو چھیڑا گیا ہے، اگر ہم ان معاملات پر تھوڑا سا غور کریں تو ایسے ہی حالات ہمارے یہاں بیشتر طلباء میں پائے جاتے ہیں۔ جب میں سکول جایا کرتا تھا ،تو مجھے سکول موت کی طرح ڈراؤنا لگتا تھا۔ اساتذہ کی گندی زبان اور نمبرات کی خاطر جائز اور ناجائز طریقوں کو اپنے پیروں تلے روندنا عام سی باتیں ہوتی تھیں۔ یہی معاملہ آج کے طلبہ کے ساتھ بھی ہیں۔ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ ایک جانے مانے سکول کی ایک انگریزی کاپی کو میں دیکھ رہا تھا۔ اس پر اُستاد نے اپنا دستخط بھی کیا تھا۔ ایک سوال سے دوسرے سوال پر انگلیاں پھیرتے پھیرتے میری نظر ایک سوال پر پڑھی، اُس سوال کو غور سے پڑھ کر اور پھر جواب کی تہہ میں حتی الامکان کوشش کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جواب نصف سے زیادہ غلط ہے۔ جب میں نے اس طالب علم کی والدہ سے بات کی تو وہ آگ بگولا ہوگئی اور اُس استاد کو بُرا بھلا کہنے لگی لیکن جب میں نے بچے کی حالت کو دیکھا تو وہ تھرتھراہٹ کا شکار تھا۔ میں نے اُس سے اِس بابت سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ اگر میرے اُستاد کو اس بات کی پتہ چلا تو وہ مجھے سکول سے نکال دے گا۔ مجھے سکول کی کلاسز سے suspend کیا جائے گا۔ اس نے زار و قطار روتے ہوئے مجھ سے التجا کی کہ سر! آپ اس کام کو ایسے ہی رہنے دیں۔ یہ غلط ہے یا صحیح میں ان ہی جوابات کا رَٹا مار کر امتحان میں اچھے نمبرات حاصل کرونگا ،جس سے مجھے سکون قلب میسر ہوگا۔ آپ مجھے جس جھنجھٹ کا شکار کررہے ہیں وہ میرے لیے تباہی کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ میں ایک دن سرینگر جارہا تھا، راستے میں مجھے کچھ طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ بحث میں محو دکھائی دیئے۔ میرا دھیان بھی مجبوراً ان کی طرف مبذول ہوا۔ جب میں نے بحث کی بنیاد کو اپنے کانوں سےسُنا تو میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ وہ لوگ اپنے دوست کی مدد کر رہے تھے جو کمرۂ امتحان میں برائے نام پرچہ دینے گیا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کو وہی سے موبائل کے ذریعے پرچے کے فوٹو بھیج رہا تھا تاکہ وہ دوست اس کی ناؤ کو صحیح سلامت بھنور سے نکال کر ساحل تک لے آئیں۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے اُس وقت ہی اِس نظام تعلیم سے سارا بھروسہ اُٹھ گیا اور آنے والی کل کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ اب ان کھوکھلے نعروں اور وعدوں کی کونسی اہمیت باقی رہ جاتی ہیں، جب طلبہ غیرقانونی طریقوں سے پاس ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نقل کرنا یہاں عام سی بات ہے۔ ایک بار فارم بھرنے کے دوران میں نے دکاندار کو گائڈ کتابوں اور نوٹس کے zero size بنانے میں اتنا مصروف پایا کہ لگ بھگ دو دنوں تک مجھے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا۔ طلبہ قطاروں میں دکاندار کے سامنے نقل کا تیار شدہ مال اپنے پرچوں میں چھاپنے کے لئے بے چین دکھائی دے رہے تھیں۔ اب ہم اگر اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا یہ واقعی تعلیم ہے یا پھر دلالی! تو میرا جواب ہوگا دلالی۔

اس نظم کی وسعت پوری دنیا کو گھیرے ہوئی ہے۔ اس کے اسباق ہر دور میں قابل اتباع ہیں۔ پچھلے کئی مضامین کے آخر پر میں کچھ گزارشات کیا کرتا تھا لیکن اب میرا دل مجھے ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔ میری اندر کی آواز چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ نقارخانے میں طوطے کی آواز کون سُنے۔ اب جو حضرات اس مضمون کو پڑھنے کی زحمت کریں گے وہ خود ایک منٹ کے لئے اپنے اندر جھانک کر اس نظم کا ایک بار مطالعہ ضرور کریں۔ میں کوئی ادیب نہیں ہوں کہ Williams Blade کی نظموں کا critical appreciation کی نئی تاویلیں پیش کروں۔ ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے اور مزدور گھرانے سے تعلق رکھنے والا میں ایک عام انسان ہوں۔ میری کوئی اوقات نہیں ہے کہ کوئی خاطر خواہ تبدیلی لاؤ۔ ہاں! اس نظام تعلیم کو میں صرف کوس سکتا ہوں اور کبھی کبھار قلم کو جنبش دے کر اپنے دل کو ہلکا کرسکتا ہوں۔ میں نے موجودہ نظام تعلیم سے ایسی کوئی امید وابستہ نہیں رکھی ہے کہ آنے والے کل میں میرا دل ٹوٹ جائے۔ جب William Blake اس نظام کے اندر کوئی خاطر خواہ تبدیلیاں لانے میں ناکام ہوئے تو میں کس کھیت کی مولی ہوں۔ میں اپنے قاریوں سے معذرت خواہ ہوں جن کو میری اِن کڑوی باتوں سے چوٹ پہنچے گی، لیکن حالات ہی ایسے ہیں کہ خاموش رہوں تو مشکل ہے کہہ دوں تو شکایت ہوتی ہے کے مصداق میرے حالات ہیں۔ میں اس نظم سے کافی متاثر ہوا ہوں۔ اس لئے میں آپ سے گزارش کرتے ہوئے اس مضمون کا اختتام کر رہا ہوں کہ اس نظم کو ایک بار ضرور پڑھیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کریں۔
[email protected]
�������������������