علمی تحریک کا سنہری دور | مسلمانوں کی تصانیف سے علم کا نور پھیل گیا تاریخی حقائق

شیخ ولی محمد

جس علمی او ر تعلیمی تحریک کا آغاز پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے سرزمین عرب میں کیا ۔ بعد میں آپ ؐ کے ساتھیوں نے اس کے پھیلاؤ کے لیے ٹھوس اقدامات کئے ۔ مساجد ، مدارس اور جامعات کے ذریعے دنیا کے مختلف خطوں میں تعلیمی نیٹ ورک قائم ہوا ۔ اگرچہ ابتداء میں صرف دینی اور شرعی علوم ہی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن سکے لیکن بعد میں دوسرے علوم یعنی علوم عقلیہ و نقلیہ کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔ مسلمانوں نے ملکی فتوحات سے کہیں زیادہ شاندار کارنامے علم کے میدان میں انجام دئیے ۔ مسلمان خلفاء نے سائنس دانوں اور محقیقین کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اپنے سے قریب کرلیا ، اپنا معمد بنالیا ور بحث تحقیق میں مکمل آزادی دی ۔ انہیں اتنا عطیہ دیا جاتا تھا کہ مطالعہ اور بحث و تحقیق کے علاوہ ان کو کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ ایک طرف علمائے اسلام میں تعلیمی ذوق و شوق انتہاہ پر تھا اور دوسری طرف تعلیمی پروجیکٹوں کی سرپرستی خلفاء کررہے تھے ۔ خلیفہ ہارون رشید نے یونائی فلسفیوں اور علماء کی گراں قدر علمی سرمایہ کو عربی زبان میں منتقل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا ۔ اس کے بعد خلیفہ مامون رشید نے یہ پروجیکٹ پائے تکمیل تک پہنچایا ۔ اور مختلف مذاہب اور عقائید سے تعلق رکھنے والے علماء کے ہاں ترجم کرنے کی ڈیوٹی سپرد کی ۔ چنانچہ بہت سارے ذرائع سے کتابیں حاصل کی گئی اور ان کا ترجمہ کرنے کے عوض مترجم کو کتابوں کے وزن کے برابر سونا عطاکیا گیا۔مشہور مورخ گبن مسلم خلفاء امراء اور حکمرانوں کے علم دوستی اور سرپرستی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک لکھ گیا کہ ’’ صرف خلفائے اسلام ہی علم کی سرپرستی نہیں کرتے تھے بلکہ مسلم وزراء گورنر یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے امراء بھی علم دوستی کے معاملہ پر بہت زیادہ فیاض تھے ۔ چنانچہ مدارس کے قیام اور طلبہ کی امداد میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ‘‘ ۔

مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں علم و ثقافت کا بہت اہتمام کیا اور اس میں انہیں ہر طرف سے کامیابی ملتی رہی ۔ انہوں نے علم کے مختلف میدانوں میں کمال حاصل کیا ۔ ادب ، فلسفہ ، طبّ ، کیمیا ، طبعیات ، فلکیات ، ریاضیات ، نباتات ، حیوانات ، تاریخ ، جغرافیہ ، بحار ، ایجادات ، فنون و کاریگری جیسے علوم میں کارہائے نمایاں انجام دئیے ۔ عہد وسطیٰ میں اسلامی عربی طب کی کئی شاخیں و جود میں آگئی ۔ ہر شاخ میں داکٹروں کی ایک ماہر ٹیم ہوتی تھی ۔ خلیفہ مقتدر نے ۳۱۹ ہجری میں طب کے پیشے کو واجب کردیا یہاں تک کہ ایک امتحان منعقد کیا جاتا تھا جس میں کامیابی پر اس پیشہ کو اختیار کرنے کی اجازت دی جاتی تھی ۔ صرف بغداد میں اس طرح کے امتحانات میں 900ڈاکٹروں کو سند یں دی گئیں ۔ رازی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تجرباتی طب کی بنیاد رکھی ۔ وہ پہلے حیوانات پر اپنا تجربہ کرتے تھے ۔ علی بن عباس کی کتاب ’’ الکتاب الملکی فی الطب‘‘ کا یورپ میں چھ صدیوں تک رواج رہا ۔ اسی طرح ابن قاسم زہراوی کی کتاب یورپ کے عوام و خواص کے درمیان متداول رہی۔ اس کتاب کا آخری حصہ( Surgery)آپریشن کے متعلق ہے۔ ابن سینا کی کتاب ’’ القانون‘‘ کا فی مدت تک یورپ کے طبی کالجوں میں Text Bookکی حیثیت سے پڑھائی گئی۔

جابر بن حیان کو علم کیمیا کا باوا آدم کہا جاتا ہے ۔ مشہور مورخ ول ڈیورانٹ (Wall Durant)کہتا ہے کہ تجرباتی علم کی حیثیت سے کیمیا کی دریافت کا پورا کریڈٹ ان مسلمانوں کے نام ہے جنہوں نے سائنسی تحقیق کے طریقے بنائے ۔ علم طبیعات میں عرب کے مطالعات بالکل صحیح تجرباتی سائنٹفک طریقہ پر مبنی ہیں ۔ اس سلسلے میں سرفہرست نام حسن بن ہشیم اور ابوریحان بیرونی کا ہے ۔ چنانچہ ابن ہثیم علم ریاضیات کا بھی ماہر تھا ۔ اس نے روشنی کے انعکاس کو واضح کیا اور اپنے مطالعات میں پوری دقت نظر کے ساتھ آنکھوں کے اوصاف بتائے ۔ ان کی سب سے بڑی کتاب ’’ المناظر‘‘ کا لاطینی زبان میں Prederick Rsinerنے ترجمہ کیا ۔ علم فلکیات کے عرب ماہرین میں بنوموسی بن شاکر ، ابو محشرالبلخی ، ثابت بن قرہ ، فرقانی ، بوزجانی وغیرہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔ عربوں نے مختلف علوم و فنون کی طرح علم ریاضیات میں بھی دسترس حاصل کی ۔ محمد بن موسیٰ خوارزمی نے ریاضی کی تاریخ میں صفر ( Zero) کو متعارف کیا ۔ علم الجبرا ، علم المثلت ، علم زاویہ والتماس عرب ریاض دانوں کا مرہون منت ہے ۔ اسی طرح علم نباتات ، دواسازی ، زراعت وغیرہ کی نشو و نما عرب کے ہاتھوں ہوئی ۔ علم جغرافیہ کی وجہ سے بہت سے عرب علماء مشہور ہوئے ۔ جن میں الشریف الادریسی سرفہرست ہیں ۔ علم بحار / علم جہاز رانی میں ابن ماجد نے سب سے پہلے جدید معنی میں جہاز رانی کے قطب نما کو ترقی دی ۔
ساتویں صدی سے پندرویں صدی عیسوی تک کازنامہ جو تقریباً ایک ہزار سال پر محیط تھا ،اسلامی دنیا کے ذریعہ فکری ، علمی اور سائنسی انقلاب لانے کا دور کہا جاتا ہے ۔ یورپ کے ایک غیر جانبدار معروف مورخ چارلس جیلسپی(Charles Gillespie)نے عہد وسطیٰ کے 132ان سائنسدانوں کی فہرست مرتب کی ہے جنہوں نے اپنی تحقیقات سے سائنس کو فروغ دیا اور ان کی تحقیقات آج کی سائنس کی بنیاد بنیں ۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اس فہرست میں 105سائنسدانوں کا تعلق اسلامی دنیا سے تھا ۔ دس بارہ یورپ سے تعلق رکھتے تھے گو یا عہد وسطی میں دنیا کے کم و بیش 90%سائنسدان مسلم تھے ۔ جبکہ مسلمانوں کی آبادی دنیا کے کل آبادی کا تقریبا 15%تھی ۔

علمی اور روشنی کے اس دور کے بارے میں مشہور ادیب اور مورخ ممتاز مفتی رقمطراز ہیں ’’ قرآن نے عقل و خرد اور علم و تحقیق کی ایک فضاء پیدا کردی ۔ جگہ جگہ علمی درسگاہیں بن گئیں ۔ یونیورسٹیاں وجود میں آگئیں نوجونوں میں علم حاصل کرنے کا شوق پید ا ہوا ۔ سائنسی تجربات کے لیے لیبارٹریاں بن گئیں ۔ جگہ جگہ کتب خانے بن گئے ۔ علمی ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں میں مطالعہ کا شوق پید ا ہوا ۔ کتابیں اکٹھا کرنا فیشن بن گیا ۔ صرف شہر بغداد میں 6000کتب خانے تھے ۔خلیفہ رشید کی بیوی زبیدہ کی لائبریری میں 6,00,000 نادر کتابیں تھیں ۔ قرطبہ کے کتب خانے میں 4,00,000 کتابیں موجو د تھیں ۔ جس کا Catalogue ۴۴ جلدوں پر مکمل ہوا تھا ۔ بغداد کی ایک گلی میں کتابوں کی 100دکانیں تھیں ۔ علم کے اس شوق کی وجہ سے دو سو سال میں عرب علماء نے کئی ایک کتابیں تصنیف کر ڈالیں ۔ ان کتابوں نے چاروں طرف علم کی روشنی پھیلا دی ۔عربوں کی تحقیقاتی کتابیں اسپین ، فرانس ، اٹلی اور انگلستان پہنچ گئیں ۔ ان کتابوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے بہت دیر بعد یورپ میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں ۔ تو یہی کتابیں پڑھائی جانے لگیں ۔ یوں مسلمانوں کی لکھی ہوئی سائنسی اور فلکیات کی کتابیں یورپی درسگاہوں میں چار سو سال تک پڑھائی جاتی رہیں ، اٹھارویں صدی تک ۔ چونکہ یہی تعلیم کا مستند ذریعہ تھا ‘‘ ۔
[email protected]