ذہنی امراض سے دوچار ہمارےنوجوان | دوستانہ وسازگار ماحول ذہنی صحت کے لئے اہم لمحۂ فکریہ

کامران امین

ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ نفسیاتی امراض کو گھروں میں ہی دبادیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ دماغ کو لگنے والے مرض کا لازمی مطلب پاگل پن ہی نہیں ہوتا۔ جیسے باقی حصوں میں لگنے والے زخم یا مرض کی نوعیت کچھ اور ہو سکتی ہے لیکن دماغ چونکہ پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے ،لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ ہو جائے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔ یہ امراض بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں انہیں ہلکا ہر گز نہ لیں۔ملک میں ذہنی امراض کو تسلیم کرنا تو دور کی بات اس متعلق بات کرنے سے بھی لوگ ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کے اس وقت ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے نوجوانوں کو کئی ایسے خطرناک ذہنی امراض کا سامنا ہے جو اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ برائے ذہنی امراض کے مطابق انسان کو لاحق ہونے والے زیادہ تر دماغی امراض 24 سال کی عمر سے شروع ہو جاتے ہیں۔ ماہرین ِ ذہنی امراض کے مطابق، ماضی کے مقابلے اب ذہنی صحت کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، کیوں کہ اس تیز رفتار دور میں زندگی کی رفتار بھی بہت تیز ہوگئی ہے۔ اب لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے۔
ویسے تو ذہنی امراض بہت قسم کے ہوتے ہیں لیکن دور حاضر میں ڈپریشن، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزوفرینیا، جذباتی صدمات اور ڈرگ کا حد سے زیادہ استعمال کا شمار ان ذہنی امراض میں کیا جارہا ہے۔ان کا نشانہ بننے والے سب سے زیادہ دنیا بھر میں پائے جانے والے طلبہ ہیں، جن پر نہ صرف اپنی پڑھائی کا بوجھ ہوتا ہے،اس کے بعد وہ معاشی (نوکری ڈھونڈنا ) دباؤ اور سماجی دباؤ ( شادی وغیرہ ) کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
آج کے دور میں طالب علم کو ہر لمحہ ہمہ جہت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک زمانے میں صرف افلاطون اور آئین سٹائین جیسی ذہانت کے طلبہ 80 فی صدنمبر لیا کرتے تھے ،مگر ہمارے ناقص امتحانی نظام کے تحت ہزاروں طلبہ سو فیصد نمبر حاصل کررہے ہیں، اس سے طلبہ پر شروع سے ہی ایک پریشر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے بھی انسان کو ایک طرح سے نہ صرف تنہا کر دیا ہے بلکہ نوجوانوں میں یہ بہت سارے مسائل کی بنیادی وجہ بھی بن رہا۔
افسوس یہ ہے کہ مسائل جس رفتار سے بڑھ رہے ،اسی حساب سے انہیں حل کرنے کے لئے وسائل مہیا نہیں ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے پریشر ککر ہیں ۔استاد اور بالخصوص سپروائزر ہماری مدد کرنے سے زیادہ دیگر سرگرمیوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ وہاں سے نکلیں تو ہمارے گھروں کا ماحول ایک اور دردِ سر ہے۔ گھریلو ناچاقیاں یا گھریلو جھگڑے زیادہ اذیت ناک ہوتے ہیں تو غلط نہ ہوگا، کیوں کہ ان کے باعث ذہنی تناؤ کے خطرات لاحق ہوتے ہیں،اگر والدین سمجھ دار ہیں تو آپ کے قریبی رشتہ دار کوئی نکل آئے گا جو پریشان کرنے سے باز نہیں رہے گا۔ بے چارہ طالب علم کرےتو کیا کرے؟
ذہنی قابلیت اور رجحان دیکھے بغیر خاندان میں طالب علموں کا آپس میں مقابلہ کیا جاتا ہے، ذہنی ٹارچر کیاجاتا ہے اگر کم نمبر آگئے تو لعن طعن کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ ذہنی الجھن کا شکار ہوکر جو وہ کرسکتا تھا اُس کے قابل بھی نہیں رہتا۔ زندگی میں ترقی کا سفر رک کر جمود کا باعث بن جاتا ہےاور یہ جمود رفتہ رفتہ اس کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کی خوشیوں، خوابوں، رشتوں اور محبتوں کو کسی دیمک کی طرح چاٹ کراسے ذہنی مریض بنا کر کھوکھلا کر دیتا ہے۔
کسی نے محسوس کیا کہ حالیہ کچھ عرصے میں ملکی طلبہ میں خودکشی کرنے کے رجحان میں خطرناک اضافہ ہوا ہے؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ چلیں اگر حکومت کچھ نہیں کر رہی، باقی ادارے بھی کچھ نہیں کر رہے تو آئیں ہم مل کر کچھ کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں، اپنے ارد گرد اپنے پیاروں پر نظر رکھیں، کون کھانا وقت پر نہیں کھا رہا یا ٹھیک سے نہیں کھا پا رہا، کون بُجھا بُجھا سا ہے؟ کس کا طرزِعمل کچھ بدل سا رہا ہے کون گم سم سا ہے۔
یہ باتیں بہت آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے اور ایسا کچھ بھی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا پیارا مشکل میں ہے، اسے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔کوئی آپ کے لئے کچھ نہیں کر رہا تو کیوں نہ آپ خود سے کچھ کر لیں۔ جب آپ کو محسوس ہونے لگے کہ ڈپریشن کی ابتدا ہو رہی تو اپنے لئے مدد تلاش کریں ۔اپنے قریبی دوست یا اپنے والدین سے اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کیجئے۔ ڈپریشن پر قابو پانے کے لئے یہ ایک بہترین دفاعی صورت ہے۔کسی دوست سے یا جس پر آپ بھرسہ کر سکیں مدد مانگیں۔آپ کے ارد گرد ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو آپ کو خوش کریں جن سے مل کر زندگی کا احساس ہو جن سے مل کر جینے کا دل کرے نا کہ وہ لوگ جو اچھے خاصے جیتے جاگتے بندے کو طعنے دے دے کر مار دیں ۔ ایسے لوگوں سے اتنا ہی دور رہیں جتنا بچے دوائوں سے دور رہتے ہیں۔دوستانہ اور سازگار ماحول ذہنی صحت کے لیے اہم ہے۔
اپنا جائزہ لیں کیا چیزیں آپ کو خوش کرتی ہیں ۔ کن کاموں سے دل بہل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ریسرچ اچھی نہیں چل رہی، کام صحیح نہیں ہو رہا، چھوڑ دیں تھوڑا سا آرام کریں ۔ وہ کریں جس سے آپ کو خوشی ہو، بریک لیں گھومنے نکل جائیں، کچھ ایسا کریں جو آپ کو راحت دیں، فریش ہو کردوبارہ سے کوشش کریں ،اپنے ارد گرد لوگوں میں خوشیاں اورمحبتیں بانٹیں ، جہاں کوئی اداس چہرہ دکھے مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کریں ۔ آپ کسی کے راستے کے سارے کانٹے نہیں چن سکتے لیکن جتنا ممکن ہو وہ توکر ہی سکتے ہیں۔