حکومت ،تعلیمی نظام اور بورڈ حکام؟

بلا شبہ اکیسویں صدی کے اس دورِ جدید میں تعلیم کے بغیر انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو نظر انداز کرنا سب سے بڑی حماقت بن گئی ہے۔اس حوالے سے جب اپنی اس وادی پر نظرڈالی جاتی ہے تو یہاں کے نظام تعلیم میں پھیلی ہوئی بے راہ روی ،بد نظمی اور کورپشن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔نظام تعلیم کو سُدھارنےاور معیار ِ تعلیم کو بڑھانے کے جتنے بھی ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں،وہ زیادہ تر ڈکھوسلے ثابت ہورہے ہیںاور مجموعی طور پرتعلیمی حکام کی پالیسیاں اور تدریسی عملے کی کارکردگیاں مایوس کُن دکھائی دے رہی ہیں۔نصاب میں تبدیلی اور مروجہ قواعد و ضوابط میں یکسوئی نظر نہیں آرہی ہے۔اگرچہ ظاہری طور پرنقل کی وباء کو کافی حد تک کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن تجارتی بنیادوں پر نقل کروائی جارہی ہے،سکول کی سطح پر قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا منصوبہ بند طریقہ کار آمد نہیںدکھائی دے رہا ہے۔دیہی علاقوں میں انفراسٹرکچر ،نصابی کتب اور اساتذہ کی کمی بدستور جاری ہے۔ اردو زبان کی تدریس کی بہتری میں معاون اور موثر سرگرمی نہیں لائی جارہی ہےجبکہ اسکولی بچوں میں اپنی فطری زبان میں بات سمجھانے کا بھی فقدان ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ امسال بھی بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی جانب سے نئی تعلیمی پالیسی پر عملدرآمد کےمشن کا خودہی محکمہ نے دھجیاں اُڑائی ہیں، تعلیمی سال کے دو ماہ گذرنے کے بعد بھی ابھی تک پرائمری کلاسز کے لئے بورڈ نصاب کی کتابیںبچوں کو دستیاب نہیں ہورہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں زیر تعلیم اسکولی بچوں کا وقت بُرباد ہورہا ہے۔ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس پر نہ تو یہاں کی سرکار اور نہ ہی تعلیمی حکام توجہ دینے کی ضرورت محسوس کررہے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کےسکولوں کی کارکردگی نہ اطمینان بخش رہتی ہے اور نہ تعلیم کا معیار بُلند ہورہا ہے۔اب اگر یہاں کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کریںتو اُن کا ہر کام تجارتی بنیادوں پر چل رہاہے۔سڑک سڑک ،ہر نُکڑ اور ہر بازار میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھر مار ہے۔اگرچہ ان میںتعلیم کا معیار نا قابل اعتبار ہے لیکن ناز نخروں کی جھنکارہے۔جس سے نہ صرف تعلیم کی وقعت پست ہوتی جارہی ہے بلکہ انتظامی عملےکی خود غرضی سے زیر تعلیم اُن لڑکوں اور لڑکیوں میں اخلاقی گراوٹ فروغ پارہی ہے ،جن کو ان تعلیمی اداروں کے منتظمین اپنی ملکیت سمجھ کر استحصال کررہے ہیں۔اُن سےمَن مانےاور موٹے موٹےرقومات اینٹھ رہے ہیں،مختلف چارزز کے تحت روپیہ پیسہ بٹور رہے ہیں۔جہاں سالانہ فیسوں میں اضافےکئے جاتے ہیں وہیں کتابوں ،اسٹیشنری اور یونیفارم کے نام پر لوٹ رہے ہیں،یہاں تک کہ ایڈمیشن دینے اور ڈسچارچ لینے پر بھی نام نہاد فنڈس اور فرضی لوازمات کے تحت اچھی خاصی رقمیںحاصل کررہے ہیں۔اس معاملے میںتعلیمی حکام کے ذمہ دار افسروں اور اہلکاروں کو بھی معقول نذرانے حاصل ہورہے ہیں۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پچھلی ایک دہائی قبل یہاں کے حکمرانوں کی طرف سےجن پرائمری سکولوں کوہائی سکول اورجن ہائی سکولوں کو ہائر سیکنڈری سکول کا درجہ دیا گیا تھا ،اُن میں ابھی تک اکثر سکولوں میں تدریسی عملہ مہیا نہیں کیا جارہا ہے ۔دیہات اور دور دراز علاقوں میں قائم ایسے بیشتر سکولوں کی خستہ حالی اور عملے کی نایابی کی خبریں آئے روز اخباروں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ گویا وادیٔ کشمیر میں حصول تعلیم کا اصل مقصد فوت ہورہا ہے۔جس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ کورپشن ، بددیانتی اور بد نظمی نے متعلقہ محکمہ کے ضمیر کو مُردہ بناکے رکھا ہے۔ سرکار ی انتظامیہ کے بار بار اعلانات کے باوجود تعلیمی نظام کو صاف و پاک کرنے ،فعال بنانے اور تعلیم کا معیار کو اونچا کرنےکی تمام کوششیں ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہورہی ہیںکیونکہ تعلیم کے اعلیٰ حکام قانون اور ضابطے کے تحت وادی بھرمیں قائم سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں ،کالجوں اور یونیور سٹیوں کی کارکردگی اور طریقۂ تعلیم کی سنجیدگی کے ساتھ مانیٹرننگ نہیں کررہے ہیں۔ایسا کیوں کیا جارہا ہے اور اس سلسلے کو کیوں جاری رکھا جارہا ہے،اس پر نہ یہاں کی سرکار اور نہ ہی اعلیٰ تعلیمی حکام توجہ دینے کی زحمت گوارا کررہے ہیں۔جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں کی حکومت اور یہاں کا ایجوکیشن بورڈ حکام اس ساری صورت حال کا سخت نوٹس لیںاور نظام تعلیم میں پنپ چکی خرابیوں کو فی الفور دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ نظام ِ تعلیم میں سُدھار آسکے۔