بارشوں کی تباہ کاریا ں اور ہماری ذمہ داریاں

وادی ٔ کشمیر میں حالیہ شدید بارشوںنے جو تباہی مچادی ،اُس سے ہر کس و ناکس واقف ہے،جس میں نہ صرف کئی انسانی زندگیوں کا اتلاف ہو ا بلکہ بڑے پیمانے پر لوگوں کومالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔شدید بارشوںسےجہاںدرجنوں تعمیرات ملیا میٹ ہو ئے، وہیں سینکڑوں رہائشی ڈھانچےتباہ و برباد ہوکر رہ گئے۔بارشوں کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں مختلف اضلاع بہت سے علاقوں کے مکین اپنے آشیانوںسے محروم ہوکر لاچار اور بے بس ہوگئے۔ تباہ کُن بارشوں سے کئی علاقوں میںزمین کھسکنے اور سڑکیں دُھنسنےکے واقعات بھی سامنے آئے ہیں،جن سے کئی اضلاع کے مختلف علاقوں کی رہائشی بستیوںمیں ہاہا کار مچی ہوئی ہے، وہ جانی اور مالی نقصانات سے بچنے کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں، اُن کی نظام ِزندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور بے کسی اور بے بسی کے عالم میں بھٹک رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ مسلسل بارشوں سے جہاں ندی نالوں اور دریائوں میں پانی کی سطح تسویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے وہیں بارشوں کے پانیوں نے بہت سے دیہات کو اپنی لپیٹ میں لے کر وہاں کی فصلوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔بارشوں کے پانیوںنے بیشتر رہائشی کالونیوں میں گھُس کر اُنہیں ندی نالوں اور جھیلوں کی شکل میں بدل کر رکھ دیا ہے۔گو کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب کبھی بھی منشائے الٰہی کے تحت زمینی یا آسمانی آفت آتی ہے تو سرکاری یا عوامی سطح پر اُسے روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بن جاتا ہے،کیونکہ قدرتی آفات کے سامنے انسان کی تمام تر کوششیں اور اقدامات بے کار ہوجاتے ہیں،ہر ترکیب، ہر ٹیکنالوجی اور ہر مشینری ناکارہ ہوجاتی ہے۔جبکہ ہر قدرتی آفت انسانوں کے لئے عذاب یا آزمائش ہی ہوتی ہے۔اس لئے ان موقعوں پر جہاں سرکاری سطح پر تباہ شدہ اور نقصان زدہ متاثرین کی زندگیوں کے بچائو اور بحالی کے لئے حکومتی اداروں کواولاً آگے آنا لازمی ہوتا ہے ،وہیں عوامی سطح پر تمام فلاحی و امدادی تنظیموں کے لئے اس کام میں حسبِ حیثیت اپنا حتی المکان تعاون پیش پیش رکھنےکی ذمہ داری بن جاتی ہے۔الیکٹرانک میڈیا ،ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اگرچہ حکومتی سطح پر سرکاری انتظامیہ پہلے ہی متحرک ہوچکی ہے اور متعلقہ ادارے راحت اور بچائو کاروائیوں میں جُٹ چکے ہیں تاہم بہت سے دوردراز ایسے ہیں جہاں ابھی تک کوئی رسائی نہیں ہوپائی ہے۔جس کے نتیجے میں اُن علاقوں کے متاثرین شدید مصائب سے دوچار ہیں۔کئی علاقے ایسے بھی ہیں،جہاں پچھلے کئی برسوں سے زمین کھسک رہی ہے، مکانات زمین بوس ہوئے ہیں ،پھر بھی کئی لوگ مفلسی اور لاچاری کے سبب نقلِ مکانی نہیں کرچکے ہیں، کب ان کے پیروں تلے سےزمین کھسک جائے، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ اس ساری صورت حال کے پیشِ نظر جموں و کشمیر کی موجودہ انتظامیہ کے لئے لازم ہے کہ قبل اس کےمختلف علاقوں میں زمین کھسکنے یا دُھنس جانےکے واقعات انتہائی رُخ اختیار کریں اور لوگوں کوبڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑے،فوری طور پراُن علاقوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو لوگ زمین دھنسنے کی وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں، ان کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اقدامات اٹھائیں،خصوصاً جو لوگ تاحال اپنی مفلسی اور لاچاری کے باعث ان خطرناک جگہوں پر رہائش پذیر ہیں،اُنہیں کسی دوسری جگہ پر رہنے بسنے کا بندوبست کرائیں تاکہ لوگوں کے جان ومال کو تحفظ حاصل ہوسکے۔یہاں یہ کہنا بھی لازمی کہ وادیٔ کشمیر میں عرصۂ دراز سے بعض غیر سرکاری فلاحی تنظیموں نے ہر نامساعد حالات کے دوران جو موثر اور مثبت رول ادا کیا ہے اور کررہی ہیں،اُس کو بھُلایا نہیں جاسکتا اور انہوں نے وقتاً فوقتاً کسی بھی بحرانی صورت حال سے متاثرہ لوگوں کی جو امداد کی اور اُن کی بحالی کے لئے جتنا حتی المقدور کام کیا ہے ،وہ واقعی قابل قدر ہے۔ جبکہ اپنی احسن کارکردگی پر اُنہیں آج بھی عوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہے ۔موجودہ صورت حال میں اُنہیں بھی متحرک ہونا چاہئے اور حسب ِ روایت اپنی صلاحیت اور کارکردگی دکھانے کی ضروت ہے ۔ساتھ عوام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ بارشوں سے بُری طرح متاثرہ اپنے معاشرے کے بھائی،بہنوں کی دل جوئی اور امدا د کے کاموں میں پیش پیش رہیںاور اُن کے دُکھ درد کو دور کرنے میں شریک ِ کار بنیں۔