ماحول میں بہتری سب کی ذمہ داری

دن بہ دن یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ سے موسمی تغیّرات میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ کووِڈ کے وبائی قہر کے بعد اب موسمی تبدیلیوں کا سلسلہ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔جس کی وجہ سے موسلا دھار بارشوں ،سیلابی ریلوں،آندھیوں ،شدت کی گرمیوں ،منجمند کرنے والی سردیوں اور برفانی طوفانوں کے باعث جہاں کرۂ ارض میں موجود ہر مخلوق کی حیات کو خاصا نقصان پہنچ رہا ہے ،وہیں مختلف ملکوں میں انسانی زندگی کے لئے مطلوب اہم غذائوں کی فصلیںبھی برباد ہورہی ہیں۔اس پر ستم یہ کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے مصنوعی کھاد کا بہت زیادہ استعمال ہونے سے زمین کی پیداواری صلاحیت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ کہیں خشک سالی سے زرعی زمین بنجر ہو رہی ہے اور کہیں مصنوعی کھاد زرعی زمین کو متاثر کر رہی ہے۔جبکہ پہاڑیاں کھسکنے،چٹانیں گر آنے ،زمین و سڑکیں دُھنسنےسے نہ صرف بڑے پیمانے پر رہائشی مکانات اور دوسرےاملاک کا نقصان ہورہا ہے بلکہ انسانی جانیں بھی تلف ہورہی ہیں۔ اگرچہ اس معاملے میںہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ سب کچھ قدرت کی طرف سےہورہا ہے، مگر اس حقیقت کو نظرانداز کر تے جارہے ہیں کہ ہم بھی اِس بگاڑ میں اضافے کے برابر کے شریک ہیں۔اکیسویں صدی کی دو دہائیوں میں ہونےوالی تحقیق اور اس ضمن میں ہونے والی کانفرنسیں بھی یہ ثابت کرچکی ہیں کہ کوئلے اور تیل کے بڑھتے ہوئے استعمال، مضر گیسز کے زبردست اخراج، دُھوئیں اور آلودگی سے فضائی ماحول شدید متاثر ہو رہا ہے۔ جبکہ ماہرین بھی بار بار گلوبل وارمنگ،گلوبل کولنگ اور موسمی تغیّرات کے حوالے سے دُنیا کو خبردار کرتےآ رہے ہیں کہ آلودہ پانی، سبزیوں، پھلوں اور غذائی اَجناس سے بھی مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں، جن سے بچّے اور معمّر افراد زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر ماحول میں بگاڑ قدرتی عمل کا نتیجہ ہے تو پھر اس کا سدّباب بھی قدرتی طور پر ہوناچاہیے۔جبکہ کرۂ ارض پر قدرتی ماحول میں بگاڑ اور اس پر موجود حیاتیات کو درپیش مسائل انسانی عمل اور غیرقدرتی عوامل کا نتیجہ ہیں، جس کی وجہ سے فضا ،پانی اور زمین میں زہریلے اور کیمیائی مادّے شامل ہوتے جا رہے ہیں۔جس سے زمین کے فطری ماحول پر منفی بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ایٹمی بجلی گھر اور دیگر ایٹمی تنصیبات سے جوہری تاب کاری میں اضافہ ہورہا ہے۔چنانچہ خلاء میں موجود موسمی سیّارچوں کی مدد سے حاصل شدہ اعداد و شمار سے بھی یہ واضح ہورہا ہے کہ گلوبل وارمنگ ایک کھلی حقیقت ہے، جس کی وجہ سے کرئہ اَرض کے موسم میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے توماحولیات میں بگاڑ میں جدید سرمایہ داری اور اجارہ دار نظام کا بھی ہاتھ ہے۔ بڑے کثیر القومی صنعتی ادارے اور کارپوریشنز غریب ممالک کے قدرتی وسائل اور معدنیات کا بے دریغ استحصال کررہےہیں اور ان وسائل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی حرص میں بہت کچھ پامال کرتے جا رہے ہیں، جس سے غریب ملکوں کے معاشرے بھوک، پس ماندگی اور غربت کی بھٹی میںجھُلس رہے ہیں۔اگرچہ دُنیا کے زیادہ تر امیر ممالک تمام حقایق سے آگاہ ہیںلیکن اپنی زرگری اور دولت میں اضافے کی حرص کی وجہ سے ماحول میں سدھارلانے اور آلودگی میں کمی لانے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔اپنی اس وادیٔ کشمیر میںشہر اور دیہات پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو، ذرائع نقل و حمل اور ٹریفک کے ہجوم کا بڑھتا ہوا مسئلہ بھی آلودگی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ شہری آبادی میں اضافے کا دبائوجس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اُس کے لیے شہر کے وسائل قطعی ناکافی ہیں۔ شہر اور مضافات کے کوڑے کرکٹ ،کچرے اور غلاظت کا بہت بڑا حصہ دریائےجہلم،ڈل ،و ولر اوردیگر جھیلوں کے علاوہ یہاں کے ندی نالوں اور چشموں میں ہی ڈالاجارہا ہے، ہمارے اس طرزِ عمل سے نہ صرف ان میں موجود آبی حیات کا ستیا ناس ہورہا ہے بلکہ اس سے آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دیگر سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہاں کی سرکاری انتظامیہ مسائل حل کرنے اور آلودگی میں اضافے کی روک تھام سے قاصر نظر آرہی ہےتو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطۂ زمین کی سلامتی اور آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہم سب کو ضرور سوچنا چاہئے ، یہاں کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار اداکرنے کی کوشش کرنی چاہئےاور آب و ہوا میں تبدیلی کو زماں اور مکاںکے تناظر میں پرکھنا چاہئے۔