امتحان ،امتحان ،امتحان،ہر طرف امتحان بچوں کو امتحانی دبائو سے باہر نکالیں

شیخ ولی محمد

ماضی میں کشمیری جاڑے کی سردی اور برف باری کے بعد مارچ کا انتظار بے صبری سے کرتے تھے کہ اب موسم بہار میں خوشگوار موسم دیکھ نے کو ملے گا۔ ہر طرف شجرکاری دیکھنے کو ملتی تھی۔زراعتی اور باغبانی سرگرمیاں ،کھیتوں اور باغات میں ہر طرف دیکھنے کو ملتی تھیں۔سرمائی تعطیلات کے بعد بچے خوشی خوشی اسکولوں کی طرف رُخ کرتے تھے۔اب جو طبقہ مارچ کی آمد سے ڈر محسوس کرتے ہیں وہ یہی معصوم بچے ہیں ۔کیونکہ تعلیمی سیشن میں تبدیلی کی وجہ سے اب نومبر کے بجائے مارچ میں سالانہ امتحانات لئے جارہے ہیں۔سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح کے امتحانات جے اینڈ کے بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے منعقد کئے جارہے ہیں جبکہ اول گریڈ سے لے کر نویں جماعت تک کے امتحانات سکولی تعلیمی محکمہ کی جانب سے لئے جارہے ہیں۔بچے چاہے کسی بھی سکول ہوں،سرکاری ہو یا پرائیویٹ ،کسی بھی کلاس میں ہو،پڑھنے میں دلچسپی ہو یا عدم دلچسپی ،امتحان کا نام سُنتے ہی ایک عجیب بے چینی محسوس کرتے ہیں اور خوف و ڈر کا عالم طاری ہوتا ہے۔بعض اوقات امتحانی دبائو محض بچوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ان کے والدین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔’’ایجو کیشن اِن سائیٹ فاونڈیشن Education Insight Foundationکی جانب سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق 70فیصد سے زیادہ طالب علم کو امتحان کے دوران سخت تنائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس سے ان کی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔مینٹل ہیلتھ فاونڈیشن (Mentsl Health Foundation )سے موصولہ اعدادو شمار سے مل رہی جانکاری کے مطابق طویل امتحان کے تنائو اور ذہنی صحت کے مسائل کے درمیان تعلق واضح ہے۔امتحان کا دبائو صرف اعدادوشمار کا مظہر نہیں بلکہ اس کے ٹھوس نفسیاتی اثرات ہیں۔مینٹل ہیلتھ فاونڈیشن(FHF)کے مطابق طویل عرصے تک زیادہ تنائو کی سطح پر رہنے سے طالب علموں میں اضطرابی کیفیت اور افسردگی پیدا ہوتی ہے۔امتحانی تنائو کی علامتوں میں جو چیزیں بچوں میں اکثر و بیشتر پائی جاتی ہیں ان میں بہت زیادہ پریشا ن ہونا ،سر درد اور پٹھوں میں درد ہونا ،ٹھیک سے نظر نہ آنا ،چڑ چڑاپن پیدا ہونا ،بھوک کم یا زیادہ لگنا ،پسندیدہ سرگرمیوں کا لطف نہ اُٹھانا ،منفی اور کم توانائی موڈ محسوس کرنا،مستقبل سے مایوس ہونا وغیرہ شامل ہے۔امتحانات کے ان منفی اثرات کی بنیادی وجہ یہاں پر رائج پُرانا اور روایتی امتحانی سسٹم ہے۔اساتذہ سے لے کر طلباء تک جو چیز ان کا محور اور مرکزبن چکی ہے،وہ فقط امتحان ہے۔سال بھر بچوں کے ہاتھ میں درسی کتاب کے ساتھ ساتھ سلیبس کی کاپی رہتی ہے،جسے اساتذہ ’’وحی الٰہی‘‘ سمجھ کر اسی کے مطابق اسباق اور عنوانات اور کچھ مشقی سوالات تک محدود رہتے ہیں۔بچے گوٹا فیکشن /رَٹا کلچر Rote learningکے عادی ہوتے ہیںاور سال بھر امتحانات کا ایک نہ ختم ہونے والے مراحل سے گزرتے ہیں۔معروف ماہر تعلیم افضل حسین امتحانات کے اس مروجہ نظام کی خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ ’’امتحانات ہی تعلیم کا مقصود بن گئے ہیں اور تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد نظروں سے اُوجھل ہوگیا ہے۔مضامین ،مسائل اور کتابوں کے انہی حصوں پر زور دیا جاتا ہے جو امتحان کے نقطہ نظر سے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔صرف منتخب حصوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔خلاصوں اور شرحوں(Guides)سے کام چلایا جاتا ہے۔کامیابی کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔امتحانی سوالات کا پتہ لگانے،دھوکہ دینے،پرچہ آوٹ کرنے ،نقل کرنے،پوزیشن لانے کے لئے مد مقابل کو زک پہنچانے ،سفارش کرانے یہاں تک کہ بعض صورتوں میں رشوتیں دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔‘‘امتحانات میں اچھے نمبرات کے ساتھ پاس ہونے والے اپنے ہمسائیوں ،رشتہ داروں اور دوستوں کے بچوں کے مقابلے میں اچھی کارکردگی دکھانے اور ان چیزوں کو سماج میں وقار کی حیثیت دینے سے والدین اپنے بچوں کو شدید ذہنی دبائو اور تنائو میں مبتلا کردیتے ہیں۔معروف ماہر تعلیم و نفسیات مرحوم پروفیسر عبدالغنی مدہوش نے امتحان میں نمبرات کی بنیاد پر کارکردگی کو نمبر گیمز (Number Games)سے تعبیر کیا ہے۔اگر امتحان میں ایک بچہ 99فیصد نمبرات حاصل کرتا ہے اور دوسرا بچہ 98فیصد نمبرات حاصل کرلیتا ہے تو اس کے والدین اور رشتہ دار اس پر اتنا دبائو ڈالتے ہیں کہ اس کے نمبر ایک فیصد کیوں کم ہیں؟ اس سسٹم کی خامیوں کی بنا پر ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی کلاسوں میں یا تو امتحان کا تصور نہیں ہے یا اگر ہے تو نمبرات کے بجائے گریڈنگ (Grading System)لاگو ہے جس کی وجہ سے بچے مقابلے کی دوڑ میں دبائو اور تنائو کا شکار نہیں ہوتے۔اب جبکہ نئی قومی تعلیمی پالیسی NEP2020میں امتحانی سسٹم کی اصلاحات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور گزشتہ دو تین سال سے زمینی سطح پر اس کو عملانے کے لئےکوششیںجاری ہیںتاہم واضح ہدایات اور رہنما اصولوں کے باوجود ہمارے اساتذہ کرام پرانے ہی تعلیمی سسٹم پر ڈٹے ہوئے ہیں۔اب تشخیص اور تجزیہ کے طریقے بدل گئے ہیں۔یونٹ ٹیسٹس اور ٹرم ٹیسٹ کی جگہ FormativeاورSumamative Assesmentنے لی ہیں۔روایتی مارکس کارڈ کی جگہ اب ہولیٹِک پروگریس کارڈHolietic progress cardاستعمال کیا جائے گا ۔ان سبھی چیزوں کا بدلائو فقط ایک ہی نقطہ کے ارد گرد گھومتا ہے،وہ صرف یہی ہے کہ بچے کی ہمہ جہت صلاحیتوں ،خوبیوں اور خامیوں کی تشخیص اور تجزیہ ہو،جس کی بنیاد پر اس کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے،اور ساتھ ساتھ بچے سال بھر ایسے خوشگوار ماحول میں تعلیم حاصل کریں کہ امتحانات کے منڈلارہے سایوں سے وہ دور رہیں،جنہوں نے ان کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔
اب چاہے بچے کا امتحان پرانے طرز پر لیا جائے یا نئے طریقۂ کار کے تحت لیا جائے تو اساتذہ صاحبان سے دردمندانہ اور مخلصانہ گذارش ہے کہ وہ بچوں سے امتحان کا خوف ،ڈر،دبائو اور تنائو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔اسکول کو امتحانی ہال میں بدلنے کا تصور بچوں کے ذہن سے نکال دیں۔اساتذہ کو ممتعن Examinerکا نام دینے سے گریز کریں ۔سوالنامہ حرفِ آخر نہ سمجھے بلکہ اس میں ماحول کے مطابق ترمیم و تبدیلی کی جاسکتی ہے۔جو بچہ ذہانت کی بنیاد پر اپنی طرف سے جوابی پرچے میں کوئی نقطہ لکھ سکے،اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔اگرچہ کسی بھی طالب علم کی اگلے درجے یا جماعت میں ترقی اس کی امتحان میں کامیابی سے مشروط ہے تاہم بورڈ کے امتحانات کوچھوڑ دیگر کلاسوں کے امتحان میں تشخیصی عمل کے دوران نمبرات دیتے وقت بخُل اور کنجوسی سے کام نہ لیں۔امتحان میں کارکردگی کی بنیاد پر جب بچے کو ترقی دے کر اگلے درجے میں اس کا اندراج کیا جاتا ہے تو نمبرات کی بنیاد پر ان کو رول نمبر الاٹ نہ کیا جائے،ایسے کمزور بچے احساس کمتری کے شکار ہوتے ہیں۔اس مشق کے منفی اثرات کو مدنظررکھتے ہوئے نئے کلاس میں بچوں کے رول نمبر مارکس کے بجائے قرعہ اندازی یا حروف تہجی کے طرز پر رکھیں۔والدین حضرات سے بھی یہی گزارش ہے کہ وہ امتحانی ایام میں بچوں پر زیادہ نمبرات حاصل کرنے کے لئے دبائو نہ ڈالیں بلکہ اگر کوئی بچہ امتحان میں فیل بھی ہوتا ہے تو اس کے لئے یہ آخری آپشن تصور نہ کریں۔زندگی مسلسل امتحان ہے ۔یہاں بار بار گرنے کے بعد بھی اُٹھ جانے کا نام کامیابی ہے۔مشہور سائنس داں اورسابق صدر ہند ڈاکٹر اے پی جے ابو الکلام کا کہنا ہے ،’’فیلFailسے مراد ۔۔۔First Attempt in Learningیعنی سیکھنے کی پہلی کوشش۔آخری پر معصوم بچوں سے بھی یہی نصیحت ہے کہ ہر مضمون اور ہر سبق کا خلاصہ اپنے ذہن میں محفوظ کرلیں۔امتحان گاہ وقت پر وقت پر پہنچے اور وقت کا خیال رکھتے ہوئے پوچھے گئے سوالات کا جواب اعتماد اور سکون کے ساتھ تحریر کریں۔امتحانی اصول و قوانین کا خاص خیال رکھیں ۔نقل کا تصور اپنے دماغ سے پوری طرح نکال دیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ رب العالمین سے اپنا واسطہ برقرار رکھیں ۔رَبّ ِ زِد نی عَلما،یعنی علم میں اضافہ کی دعا کو معمول بنائیں۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
[email protected]>