ہمارا رجحان ہماری فطرت کی پہچان ہے

بے شک عزم اور حوصلہ کامیابی کے لئے لازمی ہے اور کامیابی کی اولین شرط خود اعتمادی ہے جبکہ ہمارا رجحان ہی ہماری زندگی کی کسوٹی ہے۔اس اعتبار سے جب ہم اپنے معاشرے کی نوجوان نسل کو دیکھتے ہیں تواکثر نوجوان یہی اُمید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہم نے محنت کی ہے،کامیابی ضرور ملے گی۔ مگرحق تو یہی ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ ہر کوئی چیز انسان کے کنٹرول میں نہیں ہوتی۔اس لئے انسان کے پاس کوئی دوسرا منصوبہ بھی ہونا چاہیے،تاکہ ایک کام میں ناکامی کے بعد دوسرا متبادل راستہ اختیار کریں۔گویا یہ سراسر بزدلی ہےکہ کسی ناکامی پر مایوس ہو کر بیٹھ جائے اور یہ بھول جائےکہ ناکامی کے جذبے سے کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوپاتی ہے۔اس لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تلاش کی جائیں اور ان کا مزہ لیا جائے۔گو کہ والدین ہر مشکل صورتحال سے اپنے بچوں کو بچائے رکھتے ہیں، اُن کے حصے کے کام بھی کرتے ہیں ، ہر جگہ اُن کے ساتھ ہوتے ہیں اور جب تک بڑے ہوجاتے،اُن کے ہی حفاظتی حصار میںرہتے ہیں لیکن جب بچہ جوان ہوجائےتو بڑے ہونے کے لیے اُسے کچھ سختیاں جھیلنی پڑتی ہیںاور تلخ حقائق کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ والدین نوجوان کے مسائل حل کرنے کے لیے ہمیشہ ساتھ نہیں دے سکتے۔اس لئے نوجوان کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے لئےزیادہ سے زیادہ خودانحصاری اختیار کرلینی چاہیے ۔ اگر کوئی پیچیدہ معاملہ ہوتو اپنے والدین یا بڑے بزرگوں سے رہنمائی ضرور لینی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ہر نسل کو جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے، وہ وقت اور ماحول کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں۔ موجودہ نسل اپنےبڑے بزرگوں سے زیادہ معلومات رکھتی ہیں اور اُن تک رسائی اِن کے لیے آسان ہے۔ موجودہ نسل کے پاس ٹیکنالوجی ہے، جس سے مثبت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔وہ اپنے دماغ کوخود ہی کنٹرول کرسکتے ہیںاور وہ کام کرسکتے ہیں جس سے وہ زندگی میں آگے بڑھیں،البتہ کامیابی کی بلندی پر پہنچنے کا کوئی خود کار زینہ تو ہوتا نہیں بلکہ کامیابی کے لئےایک ایک زینہ چڑھنا پڑتاہے۔موجودہ زمانے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے بہت سی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ آج کے دور میں وہ سہولتیں میسر ہیں جو ہمارے والدین یا اُن کے والدین کو میسر نہیں تھیں۔ البتہ وقت بدلنے کے ساتھ مسائل کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ اس دور میںموجودہ نسل کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔کیونکہ اس دور میں مواقع کم اورامیدوار زیادہ ہیں۔ صورت حال پریشان کن ہے لیکن اُن کے لئے نہیں جو حالات پر نظر اور خود کو تبدیلیوں کے لئے تیار رکھتے ہیں۔ بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جن کو ابتدا ہی سے بہت سی سہولتیں میسر ہوتی ہیں،انہیں مشکلات کا اندازہ کبھی نہیں ہو پاتا اور ذرا سی بحرانی کیفیت سے ان کی زندگی میں ہل چل مچ جاتی ہے۔اسکے برعکس جو نوجوان شدید مشکلات سے گزر کر اپنا راستہ بناتے ہیں، اُن کی صلاحتیں خود بخودنکھرنے لگتی ہیںاور جو نوجوان پُر اعتماد نہیں ہوتے، وہ تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اگر مشکلات نہ ہو تو انسان میں تحقیق و جستجو کی لگن ہی پیدا نہ ہوگی، اکثر حالات ساز گار نہیں ہوتے لیکن انہیں بنایا جاتا ہے۔ عزم مصم زندگی کے سمندر میں سفر کرنے والوں کے لئےروشنی کے مینار جیسا ہے۔ دنیا کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کل آپ کیا تھے، وہ آپ کی قابلیت کا اندازہ آ پ کے آج کودیکھ کر لگا دیتے ہیں۔ اس لئے گزرے ہوئے کل پرکف ِ افسوس کرنے کے بجائے آج اوراس سےکہیں بڑھ کر آنے والے کل کی تیاری کرنی چاہیے۔ اگر زندگی کے دریا کو رُخ تبدیل کرنا ممکن نہ ہوتا تو آج ہمیں یہ نیرنگی بھی دکھائی نہ دے رہی ہوتی، کوئی بہت امیر ہوتا نہ کوئی بہت غریب۔ دنیا کا نظام اسی طرح چلتا ہےاور جو نوجوان زندگی کی حقائق کا ساتھ دیتے ہیں وہ آگے نکل جاتے ہیں۔ سچ تو یہی ہے کہ مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے۔ نوجوانوں کو پریشانیوں سے نبرد آزما ہونا چاہیے، درد جھیلنا چاہیے، جب تک نوجوان درد یا پریشانی سے گزریں گے نہیں، اُنہیں بہتری کی ترغیب بھی نہیں ملے گی۔ ناکامیوں کو جھیل کر ہی نوجوان کی شخصیت نکھر آتی ہے اور اپنے آپ پر مکمل اعتماد ہونےسے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔