گدا گری کا بڑھتا ہوا رجحان؟

کسی بھی صحت مندانسان کے لئے گدا گری لعنت ہےاور سب سے بڑی ذلت یہ کہ وہ اپنے جیسے آدمی کے سامنے ہاتھ پھیلائے ،جب کہ وہ اپنا رزق کمانے کے لائق ہو۔بغور دیکھاجائےتو انسان کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق نہیں جو اپنے ہم جنس کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کا رزق مقرر کر دیا ہے ، جب تک وہ اپنے رزق کا آخری دانا نہیں کھا لے گا، اُس وقت تک اُسے موت نہیں آتی ہے۔اسی لئے ہمارے پیارے نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ’’ جو شخص صاحبِ صحت ہونے کے باوجود بھیک مانگتا ہے، وہ قیامت میں اللہ کے حضور ایسے پیش ہوگا کہ اُس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا۔‘‘ہاں!ہمارےقرآن کریم میں اللہ نے یتیم و بے کسوں کی سرپرستی اور داد رسی کا حکم دیا ہے، زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات میں غرباء و مساکین کا حق مقرر کیا ہے اوریہ انفرادی خیر کا کام خدمت ِخلق خدا ہے اور نیکیوں میں اس کا افضل مقام ہے ۔اگرچہ دنیا کے بیشتر ملک میں گدا گری پر پابندی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں گداگری ایک منظم پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے، بے شمار لوگوں نے گداگری کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے ۔خصوصاًبرصغیر میںگداگری مافیا کے گروہ بڑے سفاکانہ طریقے سے بچوں کو اغوا کرکے اُن کو معذور کرتے ہیں اور پھر اُنہیں شہر کے مختلف علاقوں میں بیٹھا کر اُن سے بھیک منگواتے ہیں ۔ یہ شہر کے چوکوں، چوراہوں پر اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں،جس میں اُن علاقوں کی پولیس بھی ملوث ہوتی ہے ۔

 

آج سوشل میڈیا کا دور ہے، لہٰذا اب بہت سے گدا گر اس کو استعمال کرتے ہیں اور مخیر حضرات سے کثیر رقم وصول کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے اس کو جدیدیت کا رنگ دے کر جعلی خدمتی ادارے بنالئے ہیںاور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اُن خدمت اداروںکے نام پر لاکھوں روپے حاصل کر رہے ہیں ۔ جعلی یتیم خانوں کے نام پر مائیک لگا کر قرآن وسنت کا واسطہ دیکر گلی گلی اور محلے محلے میں چندہ مانگتے پھرتےہیں ۔اب جبکہ ماہِ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے تو تمام چھوٹےبڑے شہروں کی مسجد وںکے دروازوں ، بازاروں ، ہوٹلوں، چوکوں چوراہوں ، بس اڈوں اور بسوں کے اندر پیشہ ور بھکاریوں کی ایک بھیڑ نظر آتی ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں بھکاریوں کےریوڈ دکھائی دیتے ہیں، جن میں اکثر مصنوئی طور پر اپاہج بنے رہتے ہیں تاکہ لوگ ترس کھا کر زیادہ پیسے دیں ۔ ہمارے اس کشمیر میں بھی بھکاریوں کی بھر مار ہے۔خاندانی بھکاری بھی ہیں،جسمانی طور معذور بھکاری بھی اور غریب و مُفلس بھیک مانگنے والے بھی ہیں،لیکن اب یہاں اُن بھکاریوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے جو کسی نہایت مجبوری کے سبب بھکاری نہیں بنے ہیں بلکہ اُن کے لئے گداگری کا پیشہ جہاں بے حد نفع بخش کاروباربن گیا ہے وہیں ایک ایسا نشہ بن چکا ہے،جسےوہ چھٹکارا نہیں پاسکتے ۔کسی بس اسٹاپ پر اچانک کوئی نوجوان ایک ہاتھ میں کسی اجنبی کی تصویر اور دوسرے ہاتھ میں کسی ہسپتال کا ایڈمشن کارڈ اور کچھ پھٹے پُرانے ڈاکٹری نسخے لے کر کسی شاطر سیاست دان کی طرح ایسی پُر اثر تقریر جھاڑ دیتا ہے کہ پوری بس کو رام کرکے سو دوسو روپے لیکرہی اُتر جاتا ہے۔اسی طرح بعض بھکاری گروپوں کی صورت میں اپنی موٹر گاڑیوںمیں گھوم گھوم کردرد بھری التجائوں کے تحت نقد و جنس جمع کرتے رہتے ہیں۔ گویا آج انسان کے اخلاقی اقدار کو ختم کرنے والا محض پیسہ ہی بن گیا ہے۔ ہر طرف جھوٹ، ناانصافی اور بددیانتی عام ہے، لوگ چند پیسوں کی خاطر جھوٹ بول کر اپنا ا یمان خراب کررہے ہیں۔حالانکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں کسی بھی انسانی مسئلے اور مُشکل کا حل موجود ہے۔ اس لئے اسلام نےجہاں گداگری کو سختی سے منع کیا ہے وہیں گداگری کو معاشرے سے ختم کرنے کے بھی اصول وضع فرمائے ہیں، شرط بس اتنی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر شروع سے آخر تک بَصدقِ دل عمل کیا جائے ۔اگر صاحبِ ثروت مسلمان ہر سال پوری زکوٰۃ ادا کریں تو گداگری پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر واقعی کوئی حاجت مند ہے تو اس کا حل نکالیں،کیونکہ گداگری جیسی بُری عادت کو ختم کرنے کی ذمہ داری ہر ایک انسان پر عائد ہوتی ہے، اس بُرائی کے خاتمے کے لیے ہم سب کو میدان میں آنا ہوگا۔ لوگوں کے دلوں میں اس لعنت کے تئیں نفرت پیدا کرنا ہوگا، تاکہ لوگ اس بُری عادت کی طرف اپنا قدم نہ اُٹھائیںاور اس لعنت سے بچ جائیں۔