کچھ دور تو نا لے جائیں گے

ڈپلومہ ا نجینئرنگ طلباء کا مستقبل مخدوش کیوں؟

 جموں وکشمیر میں حکومت کی جانب سے 1958 میں گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل کالج سرینگر کا قیام عمل میں لایاجس کے بعد 2012 تعلیمی سیشن میں سبھی اضلاع میں گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل کالجوں کا قیام عمل میں لایا گیااور ہر سال ان اداروں سے ہزاروں طلباء فارغ تحصیل ہو رہے ہیں لیکن آگے کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی راستہ موجود نہ ہونے کے سبب ایسے طلبہ سخت ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہوئے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے ریاست بھر کے جامعات میں لیٹرل انٹری انجینئرنگ پروگرام کی نشستوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ اگرچہ یہ معاملہ حکومتی اداروں میں بہت بار اٹھایا تو گیا لیکن حکومت نے اس حساس مسلے کو نظرانداز کیا۔ ادھر آل انڈیا کونسل برائے تکنیکی تعلیم نئی دہلی کے عہدیداران کا کہناہے کہ لیٹرل انٹری انجینئرنگ سکیم کے لئے پہلے ہی کچھ اصول واضح کر رکھے ہیں، اگر چہ طلبہ کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا ہے تو ریاستی حکومت کو ہمارے دفتر کو تحریری طور پر لکھنا چاہئے جس کے بعد ہم اس مسئلہ پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔
 اس معاملے کو کئی بار حکومت اور جامعات کے عہدیداروں کے ساتھ اٹھایاگیالیکن ستم ظریفی یہ ہیں کہ لیٹرل انٹری انجینئرنگ سکیم کے نشستوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا جوکہ صرف 10 فیصد پر ہی مشتمل رکھا گیا ہے۔ ہر سال کشمیر کے جامعات میں ایک ہزار کے قریب لیٹرل انٹری ا نجینئرنگ پروگرام کے امتحانات میں شامل ہوتے ہیں اور جس میں صرف 20 نشستیںپُر کی جاتی ہیں۔ حکومتی اداروں پرلازم ہے کہ لیٹرل انٹری انجینئرنگ سکیم کی نشستوں میں بنا کسی تاخیر کے اضافہ کیا جائے تاکہ ہزاروں ڈپلومہ ہولڈروںکا مستقبل مخدوش ہونے سے بچ جائے۔
انجینئر شاہ خالد، [email protected]

قیمتوں میں اعتدال کا مسئلہ 

شہر سرینگر اور بیشتر دیہات میں روز مرہ استعمال ہونے والی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کسی طرح کا کوئی اعتدال نظر نہیں آرہا ہے ۔ہر بازار میں جس انداز سے ضروری چیزوں کی قیمتوںمن مانے ڈھنگ سے وصول کی جارہی ہے ، اُس سے ساری آبادی پریشان ہے ۔خاص طور پر معاشرہ کا وہ طبقہ جس کا گذر بسر محدود آمدنی پر منحصر ہے زیادہ تکلیف کا شکار ہورہا ہے۔اشیائے خورد و نوش فروخت کرنے والے تقریباً سبھی لوگ بہت زیادہ ناجائز منافع خوری کررہے ہیں اور متعلقہ سرکاری ادارے قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے ،بلا جواز اضافہ کرنے کی کاروائیوں پر قدغن لگانے اور حد سے زیادہ منافع خوری پر روکنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں ۔جس کے نتیجے میں لوگوں کو درپیش مسائل اور مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔صارفین کو ہر ضرورت کی اشیاء باہر کی ریاستوں کے مقابلے میں دوگنی قیمت پر ملتی ہے ۔حتیٰ کہ جو چیز جموں میں دس روپے میں ملتی ہے وہ وادی میں بیس روپے میں فروخت کی جاتی ہے،سبزیوں ،میوئوں اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں کا تعین کیا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ جموں اور لداخ کے مقابلے میں یہاں ناجائز منافع خوری حد سے زیادہ ہورہی ہے۔اگرچہ روز افزوں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے سلسلے کے متعلق سرکاری طور پر کبھی کبھی یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہاں ضرورت کی ہر چیز چونکہ درآمد کی جاتی ہے جس کی بنا پر قیمتوں کا تعین ریاست سے باہر ہوتا ہے ،اس لئے یہاں کا انتظامیہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے مگر جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے انتظامیہ کی یہ دلیل بالکل بے وزن اور غیر معقول ہے۔کیونکہ جو چیزیں وادی میں ہی پیدا ہوتی ہیںاُن کی قیمتوں کا تعین کون کرتا ہے۔چنانچہ یہاں کے تاجر ،تھوک کاروباری حلقے ، دکاندار ،ریڑے والے اور چھاپڑی فروش ضروری اشیاء کی جو قیمتیں مقرر کرتے ہیں،ریاستی انتظامیہ کے متعلقہ اداروں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس حد تک مناسب اور معقول ہیںاور لوگوں کی قوت خرید کے حدود میں ہیںیا نہیں۔لوگ یہ بھی الزام لگاتے رہتے ہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دن بہ دن من مانے اضافے تاجروں اور متعلقہ ادروں کے ذمہ داروں کی باہمی ملی بھگت کانتیجہ ہوتی ہے۔
عا م لوگ ریاستی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وادی میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے لئے اقدام کئے جائیں تاکہ محنت کش غریب طبقہ لوگوں کو زندگی گذر بسر کرنے اشیائے ضروریہ کی حصولیابی میں کسی حد تک راحت مل سکے ۔
علی محمد ڈار ۔برزلہ باغات سرینگر

چھوٹے طبی مراکز کے قیام کا مقصد فوت

اپنی اس وادی میں کے سرکاری طبی مراکز اور ڈسپنسریوں میں ناتجربہ کار و غیر ذمہ دار عملے کی موجودگی کے ساتھ ساتھ ادویات و دوسری طبی سہولیات کی کمی اور لوٹ کھسوٹ اب مستقل شکل اختیار کرچکی ہے ۔چنانچہ جس مقصد کے تحت ان طبی مراکز کا وجود عمل میں لایا گیا تھا وہ یکسر فوت ہوچکا ہے اور پچھلے تیس برسوں کے دوران ان طبی مراکز کا قیام برائے نام ہوکر رہ گیا ہے۔البتہ ان طبی مراکز کے قیام سے جہاں بیشتر لوگوں کے لئے سرکاری ملازمتیں فراہم ہوئیں ،اُن کے لئے یہ مراکز نہایت فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔بیشتردیہاتوں کے غریب اور لاچار عوام کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے نام پر قائم یہ چھوٹے چھوٹے طبی مراکز یا ڈسپنسریاںعموماً طبی عملوں ، ادویات اور دیگر طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے نتیجہ میں مریضوں کے لئے عذابِ ثابت ہوچکی ہیں اور آج بھی اکثر اوقات مریضوں کے لئے موت کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔غریب ،لاچار اور مستحق مریضوں کے علاج و معالجہ اور دیگر طبی سہولیات فراہم کرنے میں یہ طبی مراکز ہر وقت لاچار اور کنگال دکھائی دیتے ہیں۔ان میں کام کرنے والا طبی عملہ جہاں بددیانتی میں مبتلا ہوچکا ہے وہیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے کوسوں دور ہوچکا ہے۔عوامی حلقوں کے مطابق یہ طبی مراکز زیادہ تر بند ہی رہتے ہیںاور اگر کبھی عملہ کا کوئی رکن دکھائی بھی دیتا ہے تو وہ علاج و معالجہ کے بارے میں لاچار اور ناتجربہ کار ہوتا ہے اور اس طرح انسانی جانوں سے کھلواڑ کا سلسلہ ہوتا رہتا ہے ۔کوئی بھی نامور یا تجربہ کار ڈاکٹر یا طبی عملہ ان طبی مراکز پر ڈیوٹی دینے پر آمادہ ہی نظر نہیں آتااس لئے عملہ زیادہ تر غیر حاضر ہی رہتا ہے، جس کے نتیجہ میں یہ طبی مراکز محض نام کے رہ گئے ہیں۔ ان مراکز کو سپلائی ہونے والا ادویات کا مخصوص کوٹا اور دیگر سازو سامان نہ معلوم کہاں جاتا ہے؟ کیونکہ جو کوئی غریب و مستحق مریض ان مراکز کا رُخ کرتا ہے اُسے معمولی سے معمولی دوا بھی بازار سے ہی خریدنی پڑتی ہے ۔طبی عملے کی غفلت ،لاپرواہی اور بے رُخی تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے،جس کے پیش نظر دیہات میں قائم ان طبی مراکز کو اُووَر ہال کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دوردراز کے غریب مریضوں کو کسی حد تک طبی راحت مل سکے ،ان کے زخموں کا مدوا ہوسکے اور ان مراکز کے قیام کامسخ شدہ مقصد بحال ہوسکے۔
غلام احمد ماگرے ۔چترا گام شوپیان