آہ ! پروفیسر عبدالغنی مدہوش تعلیمی اُفق کا درخشندہ ستارہ غروب

 شیخ ولی محمد

۔24 فروری 2024سنیچر شام سات بجکر پچیس منٹ پر ریڈیو پروگرام ’’شہر بین‘‘ کے ذریعے معروف ماہر تعلیم پروفیسر عبدالغنی مدہوش کے انتقال کی خبر سُن کر ذاتی طور پر بہت ہی دُکھ ہوا۔ان دنوں میں ہم کشمیر یونیور سٹی کے شعبہ کامرس اینڈ منیجمنٹ کے طالب علم تھے ،جب آپ شعبہ ایجوکیشن کے سربراہ تھے۔میں تعلیم کے حوالے سے ان کے لٹریچر سے کافی مستفید ہوچکا ہوںاور مختلف سمیناروں ،مباحثوں اور ریڈیو پروگراموں سے کافی متاثر ہوا ہوں۔تعلیمی میدان میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا ۔پروفیسر عبدالغنی مدہوش آج سے 75سال قبل جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں1949میں پیدا ہوئے۔مختلف تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی میں تین دہائیوں تک بہت ساری ذمہ داری اں انجام دیتے رہے۔آپ فیکیلٹی آف ایجوکیشن کے ڈین اور ہیڈکے علاوہ ڈائریکٹر سٹیٹ ریسورس سینٹر ،ڈائریکٹر کونسلنگ اور فزیکل ایجوکیشن ،ڈائریکٹر نان فارمل ایجوکیشن کی حیثیت سے اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔بحیثیت اُستاد آپ نے پچاس سے زائد M.phillاورPhdسکالروں کی رہبری اور رہنمائی کی۔انگریزی زبان کے علاوہ اردو اور کشمیری زبان میں بھی تعلیم سے جُڑ ے ہوئے مختلف موضوعات پر قلم اُٹھایا۔1994میں ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کشمیر یونیورسٹی میں پہلی دفعہ آپ کی نگرانی میں ڈیپارٹمنٹل جرنل “INSIGHT”شائع کیا گیا ۔مدہوش صاحب نے انگریزی زبان میں لکھی گئی بہت ساری کتابوں کا ترجمہ اردو اور کشمیری زبان میں کیا ۔تحقیقی میدان میں اُن کے سینکڑوں ریسرچ پیپرس شائع ہوئے ۔وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے چنانچہ مدہوش صاحب نے کشمیری زبان میں شاعری بھی کی ہے۔2001میں جب آپ سرکاری ملازمت سے سُبکدوش ہوئے تو آپ تعلیمی میدان میں پہلے کی طرح متحرک رہے۔نئے خطوط پر موجودہ تقاضوں کے مطابق انہوں نے نوگام بائی پاس سرینگر میںA.G. Madhosh city schoolنامی ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ۔تعلیمی اصلاحات ایجوکیشنل ریفارمز کے حوالے سے حکومتی سطح پر کئی دفعہ پر مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئی اور ہر مرتبہ اپنی صلاحیتوں کی بناء پر پروفیسر مدہوش صاحب ان کمیٹیوں کا حصہ بنے۔سمینار ہو ،مباحثہ ہو،ریڈیو ٹاک ہو یا ٹی وی پروگرام ہو،انہوں نے اپنی قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پر تعلیمی سیکٹر میں ایک انقلاب لانے کے لئے اپنی تجاویز اور سفارشات پیش کئے۔پبلک سیکٹر کے بجائے وہ پرائیویٹ سیکٹر سے بہت ہی پُر امید تھے۔آج جب نئی تعلیمی پالیسی کا نفاذ عمل میں آیا ہے اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی اصلاحات کا چرچہ ہر طرف ہے، تاہم اگر گذشتہ نصف صدی پر محیط مدہوش صاحب کی تعلیمی خدمات پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جو چیزیں آج اکیسویں صدی میں بتائی جاتی ہے وہ چیزیں انہوں نے چالیس سال قبل ہی بیان کی ہیں۔چنانچہ 1984میں ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’تعلیمی رہنمائی اور صلاح کاری‘‘ شائع ہوچکی ہے۔جس میں تعلیمی رہنمائی اور صلاح کاری کا ایسا تصور پیش کیا گیا ہے کہ چالیس سال گزرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کتاب آج کل کے سولات کے جوابات دینے کے لئے لکھی گئی ہے۔تعلیم کے نام پر معصوم بچوں پر غیر ضروری بوجھ کے وہ زبردست مخالف تھے۔روایتی امتحانی سسٹم کے بجائے وہ ہمہ جہتی تجزیاتی اور تشخیصی عمل (CCE)کے قائل تھے۔ہر فورم اور پلیٹ فارم پر انہوں نے انتظامیہ کو یہ صلاح دی کہ امتحانی ،سوالنامہ پرچے پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کے بجائے ادارہ کے ذمہ داروں کے پاس ہونے چاہئے۔فیس طے کرنےکا مسئلہ ہو ،یہ محکمہ تعلیم کے ذمہ دار ہی طے کرسکتے ہیں نہ کہ ہماری عدالتیں۔سیلبس اور نصاب یا سکول بیگ کا معاملہ ہو ،غرض ہر پہلو پر انہوں نے دلیل کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔امتحانات میں بچوں کے نمبرات حاصل کرنے کی دوڑ کو انہوں نے نمبر گیمز سے تشبہہ دی ہے۔الغرض پروفیسر عبدالغنی مدہوش بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔آپ بیک وقت ایک استاد ،ایک ماہر تعلیم اور ماہر نفسیات ،تعلیمی مصلح ،ایک محقق،ایک مقرر،ایک ادیب ،ایک شاعر ،ایک پالیسی ساز تھے۔اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ مرحوم کی خدمات اور نیکیوں کو قبول فرمائیں اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں ،آمین
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشائی کرے
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے (اقبال)
[email protected]