کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:۱- روزہ رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ اب روزہ رکھ لینے کے بعد کن باتوں کی رعایت کرنا ضروری ہے اور وہ کیا احتیاط ہے جس کی وجہ سے روزہ بہتر سے بہتر بن جائے ۔
سوال :۲- رمضان شریف میں افضل عبادت کیا ہے ؟
نورالدین ۔بتہ مالو ،سرینگر

روزوں کوبچانے کے لئے احتیاط لازم
جواب۱:-روزہ رکھنے کے بعد یہ بات بہت لازم ہے کہ روزے دار اپنے روزے کو اُن تمام خرابیوں سے بچانے کی پوری فکر کرے جو روزہ کے تمام ثمرات ، اثرات اور فوائد کو ختم کردیتی ہیں ۔ قرآن کریم میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ روزہ لازم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے اندرتقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ وہ کیفیت ہے جس کے نتیجے میں مومن تمام فرائض کو انجام دیتا ہے اور تمام اُن کاموں سے بچنے لگتاہے جو اللہ اور اُس کے رسولؐ نے حرام کئے ہیں یعنی تمام حرام کردہ اشیاء سے بچنے کا اہتمام تقویٰ ہے ۔
اب اگر روزے دار میں وہ تقویٰ پیدا نہ ہو تو یہ علامت ہے کہ روزے کو اس طرح نہیں رکھا گیا جو اُس کا اصل مطلوب تھا ۔اس لئے روزہ دار کو اس کی سخت فکر کرنی چاہئے کہ اس کا روزہ تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ،ایسا نہ ہوکہ روزہ رکھامگر فوائد سے خالی !حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ اُن کو روزہ رکھنے سے صرف فاقہ ہاتھ آتاہے اورکچھ نہیں ۔اور ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا جس شخص نے غلط بات منہ سے نکالنے اور غلط کام کرنے سے اپنے آپ کو نہ روکا ، اس کے روزے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ۔ یعنی اگر کوئی کھانا پینا تو بند کرکے اپنے آپ کو روز دار قرار دے مگر اس نے اپنی نگاہوں کو قابو نہ کیا ،اپنی زبان کو روکے نہ رکھا ، حرام کمائی سے پرہیز نہ کیا اور وہ دوسرے قسم قسم کے گناہوں میں مبتلا رہا اُس کا روزہ صرف کھانا پینا بند کرنے تک محدود رہااور یہ روزہ حقیقی تقویٰ پیدا نہیں کرسکتا ۔اس لئے روزہ دار پر لازم ہے کہ وہ کم از کم ان چھ چیزوں سے بچنے کی پوری کوشش کرے :
۱۔ اپنی نگاہوں کی حفاظت :عریانیت کے اس پھیلتے ہوئے ماحول میں روزہ کو تباہ کرنے والی چیز بنائو سنگار اور قسم قسم کے فیشن کے ساتھ سامنے آنے والے ہیں،اس لئے اپنی نظروں کو اُن سے بچانے کی ہرممکن تدبیر اختیار کرنا ضروری ہے ۔
۲۔پیٹ کی حفاظت :آج حلال وحرام کی تمیز پوری طرح مٹ رہی ہے او رہر شخص اس میں سرگرم ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ آئے ۔ اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ حلال آئے یا حرام ۔ خصوصاً ملازمتوں اور تجارتوں میں حرام سے بچنے کا مزاج ختم ہورہاہے ۔ اس لئے روزہ دار حرام کمانے اور پھر حرام سے سحری و افطار کرنے سے پرہیز نہ کرے تو روزہ کے اثرات پیدا ہونا ناممکن ہیں۔
۳۔ کانوں کی حفاظت : آج کے دورمیں ایک طرف غیبت سننے کا ماحول چاروں طرف ہے اور ساتھ ہی موسیقی اور نغمے بھی عام ہیں ۔ موبائل فونہر ایک ہاتھ میںہے، بھی میوزک سننے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔اس لئے اپنے کانوں کوکم ازکم ان دو چیزوں سے بچانا ضروری ہے ۔ایک غیبت اور دوسرے میوزک۔
۴۔زبان کی حفاظت: زبان اور اس میں بولنے کی طاقت یہ دونوں اللہ کے عظیم احسان ہیں مگر اس زبان کو غیبت ، بدگوئی ، چغلی ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، فضول گوئی ، بکواس ،لغو بیانی ،عیب چینی ، عزت ریزی ، مخالفت ، طعنہ زنی اور اس طرح کے گناہوں میں انسان مبتلا رہتاہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جوشخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے کہ ان کا غلط استعمال نہ کرے تو میں اسے جنت کے اندرداخل ہونے کی ضمانت دیتاہوتا۔وہ دوچیزیں ایک زبان اور دوسری شرمگاہ ۔
اس لئے روزے دار اپنے روزے کو بچانے کے لئے اپنی زبان کو پوری طرح قابو میں رکھے ۔اس میں نامحرم کے ساتھ بات چیت بھی شامل ہے کہ اس سے پرہیز لازم ہے ورنہ روزے کے اثرات بالکل بھسم ہوجاتے ہیں اور آج بکثرت یہی ہوتاہے۔
۵۔ہاتھ کی حفاظت :ہاتھوں سے دوسرے کو تکلیف پہنچانے ، ناجائز کام کرنے ،رشوت کا پیسہ لینے ،غلط اندراج کرنے ، ناجائز کاغذات پر دستخط کرنے ، نامحرم کو غلط جذبہ سے تحفے دینے اس طرح نامحرم سے مصافحہ کرنے کے جرم میں مبتلا کیا جاتاہے ۔اس سے اپنے ہاتھوں کوبچانا ضروری ہے ۔ خصوصاً چوری ،ہیرا پھیری اور نامحرم سے ہاتھ ملانا روزے کی حالت میں روزہ کو تباہ کرتاہے ۔
۶۔دل ودماغ کی حفاظت:انسان کا دل جذبات ، احساسات ، تمنّائوں اور خواہشات کا مرکز ہے اور انسان کا دماغ سوچ بچار اور اچھے برے کے لئے غور کرنے ،سوچنے اور اس کے لئے اقدام کرنے کی تدابیر کا خزانہ ہے ۔
روزہ دار اپنے دل کو اور اپنے دماغ کو اُن تمام طرح طرح کے جذبات ، احساسات ،خواہشات ،میلانات ، خیانت ، تصورات اور تفکرات سے پاک رکھے جو اسلام نے حرام قرار دیئے ہیں اور ظاہرہے تمام جرائم کی ابتداء دل ودماغ کی سوچ سے ہی ہوتی ہے ۔ اس لئے تطہیر قلب ودماغ بھی لازم ہے تاکہ روزہ حقیقتاً روزہ بن سکے ۔
جواب:۲-رمضان المبارک میں سب سے اہم عبادت روزہ ہے ۔ اس لئے اس کا اہتمام ضروری ہے ۔ دوسرے نمازوں کی پابندی خصوصاً جماعت کی نماز نہایت ضروری ہے ۔ تیسرے اُن نمازوں کا اہتمام جن کا درجہ رمضان میں بہت اُونچا ہوجاتاہے ۔ مثلاً تہجد، اشراق ، اوابین اور تحتہ المسجد وغیرہ ۔
چوتھے تراویح کا اہتمام ۔خصوصاً ایسی جگہ تراویح پڑھنا جہاں پورا قرآن کریم تروایح میں پڑھا جاتا ہے۔یہی وہ قیامِ رمضان ہے جس کی تاکید احادیث میں ہے ۔ رمضان میں پورے عالم میں تراویح میں پورا قرآن پڑھنے کا ایک پُرنور اور بہار آفرین ماحول ہوتاہے ۔ چنانچہ دنیا کے کسی بھی شہر یا علاقہ میں جہاں مسلمان آباد ہیں تراویح کا جوش وخروش اور مساجد میںشوق وجذبہ سے قرآن سننے سنانے کا ماحول قابل رشک ہوتاہے ۔اس لئے پورا قرآن کریم جہاں تراویح میں پڑھا جائے اُس تراویح میں شرکت ہونی چاہئے ۔
پانچویں :قرآن کریم رمضان میں ہی نازل ہواہے ۔ اس لئے رمضان میں تلاوت قرآن کا خوب اہتمام کیا جائے او ر کم از کم ایک ختم اس ماہ مبارک میں لازم قراردیا جائے اور جو حافظ ہوں اُن کی تلاوت بھی زیادہ سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہو۔
چھٹے:دعائوںکاخوب اہتمام کیا جائے ۔خصوصاً گناہوں کی مغفرت ،دُنیا میں دین کے غالب آنے ، ایمانی ماحول کے عام ہونے ، اُمت مسلمہ کے تمام مسائل حل ہونے ،اُمت کو قرآن وصاحب قرآن سے مربوط ہونے اور اُمت کے ہر طبقہ کی اصلاح اور پورے عالم میں دعوتی ماحول پیدا ہونے کی خوب دعائیں کی جائیں ۔ اس کے ساتھ اپنی نجی ضروریات ومشکلات کے لئے دعاء کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-روزے کے متعلق جوعمومی مسائل کثیر الوقوع ہیں ، براہ کرم اپنے مفیدکالم میں خود ہی انتخاب کرکے ضرور شائع کریں ۔ مجھے بہت دُکھ ہوا کہ ایک نئے شادی شدہ جوڑے نے دن میں روزے کی حالت میں اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کی اور ان کویہ معلوم نہ تھاکہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا ہے اور گناہ بھی ہواہے ۔ اس لئے اہم مسائل ضرور لکھیں ۔
اعجاز احمد۔بانڈی پورہ

روزے کے اہم مسائل
جواب:-روزہ ہرمسلمان مرد عورت پر فرض ہے، بشرطیکہ وہ بالغ ہو ۔ روزہ کو فرض تسلیم کرنااور اس کو خدا کا اس کے نبی کا لازم کردہ حکم اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔ اس لئے جو شخص رمضان کی یا روزے کی توہین کرے ، تو وہ شخص ایمان سے محروم ہوسکتاہے ۔مثلاً کوئی یہ کہے ،ہم کو بھوکا پیاسا رکھنے سے اللہ کو کیا ملے گا ، یا روزہ اس وقت فرض تھا جب لوگوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا،اس طرح کے جملے بول دینے سے مسلمان کا ایمان ختم ہوجاتاہے۔روزہ کے فرض ہونے کا عقیدہ رکھنا اور پھر اس کو ادا کرنا دونوں لازم ہیں۔یعنی عقید ہ اور عمل دو الگ الگ امور ہیں اور دونوں ضروری ہیں۔ صرف ایک خاص صورت میں روزہ رکھنا منع ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی خاتون حیض یا نفاس کی حالت میں ہو تو اس کے لئے روزہ رکھنا منع ہے ۔ یعنی وہ روزہ رکھنا بھی چاہے تو اجازت نہیںاور اگر وہ رکھے گی تو گنہگار ہوگی ۔ حیض ونفاس کی وجہ سے جتنے روزے چھوٹ جائیں ان کی قضا وہ رمضان کے بعد کرے گی اور وقفہ وقفہ سے قضا کرنے کی اجازت ہے ۔ مریض ، مسافر ، حاملہ عورت ، دودھ پلانے والی خاتون ، اسی طرح جس شخص کو بار بار بے ہوشی ہوتی ہو ان افراد کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے جب مریض صحت یاب ہوجائے اور جب مسافر مقیم ہوجائے ۔اسی طرح حاملہ خاتون کا جب وضع حمل ہوجائے اور دودھ پلانے والی کا بچہ جب غذا کھانے لگے تو اب ان کو اُن فوت شدہ روزوں کی قضا کرنا لازم ہوگا ۔
روزہ مؤخر کرنے کی رخصت ہے ۔ایسا بوڑھا شخص یا اتنا کمزور فرد جس کے صحت یاب اور روزے کے قابل ہونے کی اب کوئی امید ہی نہ ہو اور یہ یقین ہے کہ بقیہ ایام حیات اسی حالت میں گذاریں گے جس کو فقہ کی اصلاح میں شیخ فانی کہتے ہیں تو اسے اس کی اجازت ہے کہ روزہ چھوڑ دے اور ہر روزے کے عوض میں ایک صدقہ فطر کے بقدر رقم صدقہ کردے ۔ یہ رقم یکمشت دینا بھی درست ہے ۔
رمضان کے روزے کے لئے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے ۔ نیت کے لئے دل میں ارادہ کرنا یا سحری کھانا بھی کافی ہے ۔ اگرزبان سے نیت کے الفاظ پڑھے تو یہ بھی بہتر اور افضل ہے ۔ اگر کسی نے نیت نہ کی یعنی روزہ کھنے کا ارادہ نہ کیا اور پورے دن بغیر کھائے پئے رہا تو روزہ ادا نہیں ہوا۔ صبح سحری میں نیت کے بعد بھی کھانے پینے کی اجازت ہے ۔سحری کے وقت ختم ہونے کے بعد ہرگز کچھ کھانا پینا درست نہیں ۔ اگر ختم سحری کو ایک دومنٹ ہوچکے ہوں تو کوئی ایک لقمہ یا قطرہ پانی ہی پی لے تو روزہ ادا نہ ہوگا ۔
سحری کھانا روز ے کے لئے لازم نہیں ۔ اگر کسی نے جان بوجھ کر یا وقت نہ ہونے کی وجہ سے سحری نہ کھائی تو بھی روزہ کی نیت کرے ،اس کا روزہ درست ہوگا ۔ سحری کھانے کی احادیث میں بڑی فضیلت ہے اس لئے بلا عذر کے سحری کو ترک کرنے سے پرہیز کریں۔ چاہے سحری کی نیت سے تھوڑا سا پانی ، دودھ ، چائے ، کھجور ، کوئی پھل یا چند لقمہ ہی کھالے تو سحری کی فضیلت حاصل ہو جائے گی ۔
کوئی ایسی حالت میں صبح اٹھا کہ اس پر غسل لازم تھا تو اب وہ غسل کرے پھر سحری کھائے ۔ تاکہ روزہ بھی ادا ہو اور نماز بھی ۔ اگر وقت کم تھا تو سحری کی نیت سے پانی، دودھ پی لے اور غسل کرے تاکہ نماز وروزہ دونوں ادا ہوسکیں ۔ اگر سحری کھا کر غسل کرنا مشکل ہومثلاً بیمار ہونے کاخدشہ ہو تو پھر پہلے غسل کرے ۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کم سے کم کوئی چیز کھالے یا پی لے اور پھر غسل کرے ۔ اگر پیٹ بھر سحری کھالی اور اب غسل نہ کیا، تو کم از کم طلوع آفتاب سے پہلے پہلے غسل کرکے نمازِ فجر اداکرے ۔ ورنہ اب اس کے بعد غسل کرے گا تو فجر کی نماز سے محروم ہو جائے گا ۔ غسل میں اگر گرم پانی استعمال کیا تو اُمید ہے کہ کوئی خرابی نہ ہوگی ۔
جوشخص یہ کہے کہ ایسی حالت میں سحری کھاکر تیمم کرکے نماز پڑھے ،وہ غلط ہے ۔
دن میں روزہ کی حالت میں کھانا پینا ، بیوی سے جماع کرنا روزے کو ختم کردے گا ۔جس شخص نے ایسا کیا اس کو روزے کی قضاء بھی لازم ہے اور دو مہینے کے مسلسل روزے بطور کفارہ کے رکھا لازم ہیں ۔یہ حدیث میںصراحتاً موجود ہے ۔
ہاں اگر کسی نے بھول کر کچھ کھایا پا پیا یعنی اپنے روزے دار ہونے کاخیال نہ رہا تو اس کا نہ روزہ ٹوٹا ، نہ اسکی قضا لازم ہوگی اورنہ کفارہ لازم ہوگا ۔ روزہ کی حالت میں مسواک کرنا ، انجکشن لگوانا ، دانت نکلوانا ، خون نکلوانا درست ہے ۔ اس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ روزے کی حالت میں احتلام ہو جائے ، خود بخود قے ہوجائے ،کان میں پانی چلا جائے ، منہ میں بلا اختیار دھواں یا کچھ اور چلا جائے تو روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔ اس طرح منہ میں لعاب جمع ہوکر معدہ میں چلا جائے تو بھی روزہ درست ہے ۔یا ناک کو سٹرک لیا(ناک کا بلغم اوپر کو کھینچ لیا)اور وہ معدہ میں چلی جائے تو روزہ پر کوئی اثر نہ پڑے گا ۔ روزہ میں تیل ، سرمہ ،عطر ،پائوڈر استعمال کرنا درست ہے ۔
روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کرنے سے روزہ مکروہ ہو جاتاہے ۔ بیوی سے اس طرح بوس وکنا رکرنا شہوانیت سے مغلوب ہو نے کا خدشہ ہو ،یہ مکروہ ہے ۔ اگر انزال ہوگیا تو پھر قضا(صرف ایک دن)لازم ہوگی ، کفارہ نہیں۔ اگر بوس وکنار میں جماع کرلیا تو پھر قضا ایک دن اور کفارہ ساٹھ دن بلاناغہ تسلسل کے ساتھ لازم ہوگا ۔ ایسی صورتحال میں بہتر ہے کہ دن میں زوجہ سے دور رہیں ۔ خصوصاًسحری کے بعد یا دوپہر کو ایک بستر پر ہرگز نہ لیٹیں۔
روزہ کی حالت میں نامحرم کو دیکھنا ،ننگے فوٹو دیکھنا، گانے سننا ، گانے گانا ، گالی گلوچ کرنا ،غیبت کرنا ، نماز نہ پڑھنا ، رشوت لینا ، آوارہ پھرنا ، نامحرم کو بلا ضرورت فون کرنا ،فحش باتیں کرنا ،فاحشانہ لباس پہننا ،جس سے دیکھنے والوں میں فحش جذبات اُبھر جائیں ۔ خواتین کا بے پردہ ہوکر باہر پھرنا ، یہ تمام کام حرام ہیں ۔ ساتھ ہی روزے کے اثرات فوائد اور مقصد کو ختم کردیتے ہیں ۔اسی طرح حرام کمائی سے سحری یا افطار کرنا حرام تو ہے ہی مگر ساتھ ہی روزہ کی روح اور اس کی افادیت کو ختم کرنے والی چیز ہے ۔