کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:-شوال کے روزوں کے متعلق کیا حدیث شریف سے کوئی فضیلت ثابت ہے یا نہیں ؟ ہمارے یہاں ایک خطیب محترم نے کچھ اس طرح سے فرمایا کہ ان کی کوئی فضیلت نہیں ہے ۔اب آپ سے درخواست ہے کہ اگر احادیث سے شوال کے چھ روزوں کی فضیلت ثابت ہو تو اُن حدیثوں کا حوالہ نقل فرمائیںاور یہ بھی فرمائیں کہ اگر یہ روزے رکھنے ہیں تو کیا تسلسل سے رکھنا ضروری ہے یا درمیان میں وقفہ بھی کرسکتے ہیں۔
غلام نبی ۔ترال
شوال کے6روزوں کی فضیلت
جواب:-شوال کے چھ روزے رکھنے کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔یہ احادیث مسلم، ترمذی ، ابودائود ، نسائی ، ابن ماجہ ، طبرانی ،صحیح ابن حبان وغیرہ میں موجود ہیں ، جوہرکتاب میں روزے کے بیان کھول کر ملاحظہ فرماسکتے ہیں ۔
چندحدیثیں یہ ہیں :
حضرت ابوایوبؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ساتھ ہی شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو گویا اُس نے زمانۂ طویل(دھر)کے روزے رکھے۔ (مسلم،ترمذی ، ابودائود ،نسائی ، ابن ماجہ وغیرہ)
حضرت ثوبانؓ حضرت رسول اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے گویا پورے سال کے روزے رکھے۔(ابن ماجہ ، نسائی)
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا شوال کے چھ روزے پورے سال روزے رکھنے کادرجہ رکھتے ہیں ۔مسنداحمد،مسند بزاز،صحیح ابن خزیمہ ۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓسے بھی مروی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر چھ روزے شوال کے بھی ادا کئے وہ اپنے گناہوں سے ایسے ہی صاف ہوجاتا ہے جیسے اُس دن پاک صاف تھا جس دن وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(معجم طبرانی اوسط)
گناہوں سے مراد صغائر یعنی چھوٹے گناہ ہیں۔ بڑے گناہ مثلاً چوری، زنا کاری ، والدین کی نافرمانی وغیرہ اسی طرح مالی معاملات مثلاً رشوت ، ملاوٹ کی چیزفروخت کرنا ، نقلی اشیاء بیچنا وغیرہ گناہ معاف نہ ہوں گے ۔
غرض کہ شوال کے چھ روزہ کی فضیلت حدیثوں سے ثابت ہے ۔
یہ روزے مسلسل رکھنا ضروری نہیں ۔اگر وقفہ وقفہ سے روزے رکھے جائیں تو وہ بھی درست ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ کشمیر کے دریائوں اور ندی نالوں کے آس پاس رہنے والے لوگ صبح یا شام کے وقت روزانہ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ دریا کے کنارے یا پلوں کے اوپر سے دریا میں بلاکسی جھجک کے پھینک دیتے ہیں جس سے پانی آلودہ ہوتاہے ۔قرآن وسنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ یہ عمل کہاں تک درست ہے ؟
فاروق احمد خان۔سرینگر

پانی کو آلودہ کرنے سے پرہیز کرنے کی ضرورت
جواب:-پانی اللہ کی عظیم نعمت ہے اور اس کی قدر اُس وقت ہوتی ہے جب اس کی قلّت کا سامنا کرنا پڑے ۔
آج کے عہد میں ماحول کی آلودگی ایک عالمی بحران کی صورت اختیار کرچکاہے ۔اس آلودگی کا ایک بڑا سبب پانی کو اس طرح سے خراب کرنے کا وہ وطیرہ ہے جو اس طرح پایا جاتاہے کہ جو کسی طرح بھی دُرست نہیں۔ حدیث میں ہے : –
تین ،اُن، غلطیوں سے پرہیز کرو جن کی بناء پر لعنت اُترتی ہے ۔
راستے پر پیشاب پاخانہ کرنا۔ پانی میں پاخانہ کرنا اور پھل دار درخت کے نیچے غلاظت ڈالنا ۔
گھر کا کوڑا کرکٹ پانی کو خراب کرنے والا وہ مواد ہے کہ جس کے بعد یہ پانی نہ انسانوں کے لئے قابل استعمال رہتاہے ،نہ جانوروںکے لئے اور نہ ہی زمینوں اور باغوں کی آب پاشی میں اس کا استعمال مفید ہے ۔اس لئے اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے اور اس کا تعلق پوری قوم سے ہے کہ قومی شعور پیدا ہو جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:(۱)(Coldrinks) مشروبات پینا کیسا ہے۔کیا اس کے پینے سے تقویٰ پر کوئی اثر پڑتا ہے؟کچھ لوگ کہتے ہیں کہ coldrinks پینے سے تقویٰ میں کمی ہوتی ہے۔
شفیق ریاض۔۔۔پہلگام
سوال: (۲)کیا موبائل پر قرآن پڑھ سکتے ہیں ؟ اگر ہاں تو پھر یہ بتایئے کہ اگر وہی موبائل لے کر بندہ باتھ روم میں یا پیشاب کرنے جاتا ہے تو اس پر کیا حکم ہے؟ اور اگر اجازت ہے تو کیا میں ٹیک لگاکر یا ٹانگیں پھیلاکر ورد کرسکتا ہوں؟
سوال:(۳) دوسرا یہ کہ میں لیٹ کر درود شریف کا ورد کرسکتا ہوں یا ٹیک لگاکر یا( Bed) بیڈ پر سوتے سوتے ؟
محمد حارث۔۔ ۔سرینگر

مشروبات پینے،موبائل پر قرآن پڑھنےاورلیٹ کر دُرود ،کلمات پڑھنے کا مسئلہ
جواب: (۱) مشروبات کی جو اقسام آج بازاروں میں دستیاب ہیں ،اُن میں وہ مشروبات جن میں الکوحل ہو ،وہ تمام استعمال کرنا جائز نہیں۔اس لئے کہ الکوحل مکمل نشہ ہے اور خمر یعنی شراب ہےاور وہ حرام ہے،چاہے کم مقدار میں ہواور جن مشروبات میں الکوحل نہیں ہے ،اُن کا استعمال کرنا جائز ہے۔اس لئے کہ ان میں کوئی حرام یا نجس چیز کی ملاوٹ جب نہیں ہے تو اُس کو اسلام منع نہیں کرسکتا۔البتہ ان مشروبات کے طبی طور پر مفید یا مضر اثرات کا فیصلہ طب کے ماہرین کرسکتے ہیں۔لہٰذا صحت کی کیفیت پر مثبت و منفی فوائد کی رہنمائی اُنہی سے لی جائے۔بعض حالات میں یہ اسراف میں آتے ہیں۔
جواب:(۲) موبائل میں قرآن کریم ڈاون لوڈ کیا گیا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔پھر یہ موبائل سوئچ آن ہو یا سوئچ آف ،اس میں بھی کوئی حرج نہیںکہ یہ موبائل بیت الخلا ساتھ لے جائیں۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص بیت الخلا جائے ،جبکہ اُس کے حافظہ اور دماغ میں قرآن کریم کا بہت سارا یا پورا قرآن کریم محفوظ ہوتا ہےاور پھر بھی وہ شخص بیت الخلا جاتا ہے۔پھر اس موبائل پر جب تلاوت کی جائے تو باوضو ہونا ضروری ہے ۔اس لئے کہ انگلی سے موبائل اسکرین کو ٹچ کرنا پڑے گا ۔لہٰذا باوضو ہوکر تلاوت کی جائے۔ٹیک لگاکر تلاوت کرنے کی اجازت ہے۔اور اگر ٹانگوں میں تکلیف ہو ،انہیں موڑکر رکھنے میں مشکل ہو تو مجبوری میں پھیلانے کی گنجائش ہے لیکن آخری بات یہ کہ سب سے افضل یہ ہے کہ صحیفۂ مبارک ہاتھ میں لے کر قرآن کریم کی تلاوت کی جائےاور تلاوت کے تمام آداب کے ساتھ ہو۔
جواب:(۳) لیٹ کر مسنون دعائیں ،اوراد ،وظائف ،درود شریف ،استغفار اور کلمات مسنون پڑھنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال ۔اگرکسی ماں باپ کی اولاد،خاص کر بالغ بیٹا یا بیٹی ، نافرمانی کے سبب ان کی بدنامی کا باعث بن جائے تو والدین کو کیا کرنا چاہئے؟
عمر مختار۔۔ ۔سرینگر

اولاد نافرمان ہوجائے تو والدین کیا کریں ؟
جواب۔نافرمان اور بدنامی کا باعث بننے والی اولاد کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ اُن کو دیندارصالح اور بااخلاق بنانے کی سعی کرنے کے ساتھ بُری صحبت سے دور رکھا جائے ۔ یہ لڑکا ہو تو دعوت کے کام کے ساتھ جوڑ ا جائے تاکہ اُس میں اطاعت والدین کی فرمان برداری کا مزاج پیدا ہو ۔
کوئی بھی انتقامی کارروائی اُس کی خرابی کی اصلاح نہیں بلکہ اُس کے مزید خراب ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔
اصلاحی کتابیں پڑھانے کا اہتمام بھی مفید ہے ۔مثلاً ’’مثالی نوجوان‘‘ ،’’نوجوان تباہی کے راستے پر‘‘ ، ’’عمل سے زندگی بنتی ہے‘‘ اور’’ حیا وپاکدامنی ‘‘ایسے نوجوانوں کے لئے مفید ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:اگر کوئی آدمی کہیں پر پڑی ہوئی کوئی رقم یا کوئی چیز اٹھائے،اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟راقم نے پڑھا ہے کہ اگر اس کا مالک نہ ملے تو اس کو اصلی مالک کے نام پر صدقہ دے۔مالک معلوم نہ ہو تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا مالک غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے ۔کیا ایسے مالک کو صدقہ کا کچھ فایدہ ہوگا ،اگر نہیں تو ایسے رقم یا چیز کا مصرف کیا ہے؟
ابو عقیل ۔۔۔سرینگر

کہیں پر گری پڑی کوئی رقم یا چیزاٹھانےکے متعلق شریعت کا حکم
جواب:جب کوئی شخص کسی جگہ سے کوئی گری پڑی چیز اٹھائے یا کوئی رقم اٹھائے تو شریعت میں اس چیز کو لُقط کہتے ہیں۔اس لُقطہ کا حکم یہ ہے کہ اٹھاتے وقت مالک تک پہونچانے کی نیت سے اٹھائے ،اگر اُس نے خوش ہوکر اپنے استعمال کی نیت سے اُسے اٹھالیا تو اس نیت کی وجہ سے وہ گنہ گار ہوگا اور پھر وہ شخص اس چیز کا ضامن بن جائے گا پھر ضمان کے احکام اس پر جاری ہوں گے جو الگ سے سمجھنے ضروری ہیں ۔اگر اٹھاتے وقت اس کی نیت درست تھی تو یعنی مالک تک پہنچانے کی نیت تھی تو امید ہے اُسے اِس دیانت داری پر اجر ملے گا ۔اب چیز اٹھانے کے بعد وہ اعلان کرے کہ میں نے فلاں چیز اٹھائی ہے جس شخص کی ہو وہ علامت بتاکر وصول کرے۔یہ اعلان تحریری بھی ہو اور تقریری بھی یعنی زبان سے بھی۔اعلان کی مدت کم سے کم دس دن ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال۔اگر یہ چیز یا رقم ایک مرغی کی قیمت کے بقدر ہو تو اعلان دس دن ،اگر ایک بھیڑ بکری کے قیمت کے بقدر ہو تو اعلان چھ ماہ یا سال بھر تک کرنے کا حکم ہے۔
اب اگر مالک آگیا اور چیز اٹھانے والے شخص کو یقین ہوگیا کہ واقعتاً مالک یہی ہے تو پھر دو اشخاص کو گواہ رکھ کر یہ چیز اُس کے حوالے کردے ،اگر اس چیز کی حفاظت میں کوئی رقم خرچ ہوئی ہے مثلاً جو چیز لُقطہ تھی وہ کوئی جانور تھا ،اُس کی حفاظت اور گھاس وغیرہ میں کوئی رقم خرچ ہوئی ہے تو مالک سے وہ رقم وصول کرے اور مالک خوشی خوشی وہ رقم ادا کرے۔اس لئے کہ اس طرح کا خرچہ تو خود مالک کو بھی کرنا تھا اگر جانور اُسی کے پاس ہوتا ۔اگر مالک اس عرصہ میں نہ آیا تو پھر یہ لُقطہ اٹھانے والا شخص اگر خود مستحق زکوٰۃ و صدقات ہے تو صدقہ کی نیت سے یہ چیز خود رکھ لے ،اگر بعد میں مالک آگیا تو وہ چیز اُس کے حوالے کردے اور وہ مالک کو یہ بھی کہہ سکتا ہے یہ چیز مدت ِ اعلان گذرنے کے بعد اُس نے اپنے استعمال میں صدقہ کی نیت سے لائی ہے۔اگر مالک نے اس صدقہ کو برقرار رکھا تو بہتر ،اگر اُس نے چیز کا مطالبہ کیا تو وہ چیز اُس کے حوالے کردے وہ خودبری ہوگا۔اور اگر یہ چیز کسی مالدار مسلمان نے اٹھائی ہے تو پھر مدت اعلان کے بعد وہ شخص دو آدمیوں کو گواہ بناکر غریبوں میں سے کسی زیادہ غریب و مفلس کو صدقہ کی نیت سے دے دے۔اگر اُس کے بعد مالک آگیا تو گواہوں کے بیانات سُناکر اُس کو صدقہ کرنے کی اطلاع دے دے۔یہ لُقطہ اگر کسی مسلمان کا تھا تو یہ یہ اُس کی طرف سے صدقہ ہوگا اور اس صدقہ کا اجراُسے آخرت میں ملے گا۔اور اگر بالفرض یہ کسی غیر مسلم کا تھا تو بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔