کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:- صدقہ فطر کیا ہے ؟ اس کی ادائیگی کاوقت کب سے ہے ؟اور اس کاآخری وقت کیاہے ؟ اس کی مقدار کیا ہے ؟ اس کی مقدار کا حساب کیسے لگایا جاتاہے ؟ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کس طرح ادا کیا جاتا تھا ؟ اس وقت روپیہ تو تھا نہیں پھر ادائیگی میں کیا چیز دی جاتی تھی ،اس کی زیادہ سے زیادہ مقدارکیاہے ؟اس کی رقم کاحساب کرنے میں کبھی مختلف آراء سامنے آتی ہے۔اس کا شرعی طریقہ بتایئے تاکہ ہم خود اس کا حساب کریں ۔ یہ کن لوگوں کو دینا ہوتاہے یعنی مستحق کون ہیں؟ ان سوالوں کا جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں ۔
محمد یونس ۔ سرینگر
صدقہ فطر :   فضائل و مسائل
جواب:-صدقہ فطر غرباء ومساکین کو تعاون دینے اور اپنے روزوں کی خامیوں ، کمزوریوں اور نقائص کو دورکرنے کا ذریعہ ہے ۔ چنانچہ احادیث میں اس کو تطہیر اللصیام وطعمۃ للمساکین کہاگیا ہے ۔ یعنی روزوں کی تطہیر اور غرباء کی مدد ۔ اس صدقہ کی ادائیگی کاوقت شروع رمضان سے عیدالفطر کی نماز کی ادائیگی تک ہے ۔ اگر کسی نے عید کی نماز تک ادا نہ کیا تو گنہگار ہوگا مگر ادائیگی کا حکم برقرار رہے گا۔
یہ ہر اُس مسلمان پر لازم ہے جو عاقل بالغ اور مالک نصاب ہو ۔ اگر کوئی خودغریب ہو اور وہ خود اپنی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے تو بہت اجرہوگا ۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عمومی غذا جَوتھی ،اس کے ساتھ گھروں میں کھجوراور کشمش کا بکثرت استعمال ہوتا تھا۔ اسی صدقہ فطر کی مقدار میں انہی اجناس کو مقرر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ کھجور،کشمش، جَو یا پنیر ایک صاع دیا جائے ۔پھر اسلامی فتوحات کے پھیلائو کے نتیجے میں جب ملک شام میں اسلام داخل ہوا اور ملک شام کی عمومی اشیاء کے ساتھ وہاں کا عمدہ گندم بھی مدینہ پہنچنے لگا تو حضرت امیر معاویہؓ جو پہلے شام کے گورنر اورپھر وہاں کے سربراہ بنے ، نے صحابہؓ کے مشورے سے طے کیا کہ گندم کھانے کا عمومی رواج ہوچکاہے اور گندم کا آدھا صاع جَو کے ایک صاع کے برابر ہے ۔لہٰذا گندم سے جب صدقہ فطر ادا کیا جائے تو نصف صاع دیا جائے اور کھجور،کشمش یا جَو سے اگر اداکیا جائے تو ایک صاع ادا کیا جائے جو خود زبانِ رسالتؐ سے بیان شدہ ہے ۔
یہ بات کہ گندم نصف صاع جَو کے ایک صاع کے مساوی ہے اس کا بیان بخاری شریف صدقہ فطر کے بیان میں ہے ۔ یہ امیر معاویہؓ کا فیصلہ تھا ۔جب کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ گندم میں بھی ایک صاع دینے کاحکم دیتے تھے ۔(بخاری)۔ بعد کے تمام فقہاء ومحدثین نے حضرت امیر معاویہؓ کے فیصلے کے مطابق گندم نصف صاع اور منقیٰ و کھجور ایک صاع جو کہ منصوص ہے ،قبول کیا اور اسی پر عمل ہونے لگا ۔ صاع اُس زمانہ کا ایک پیمانہ تھا مگر جب وہ صاع ،مُد ،رطل وغیرہ نبویؐ عہد کے پیمانے برقرار نہ رہے اور تو لے ، ماشے اور چھٹانگ کے اوزان شروع ہوگئے تو محقق علماء وفقہا ء نے نہایت عرق ریزی اور تحقیق وکاوش کے ساتھ ان قدیم شرعی پیمانوں کو تولہ وماشوں میں منتقل کیا ۔چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع کا نہایت محققانہ رسالہ جواوزان شرعیہ کے نام سے جواہر الفقہ میں شامل ہے اسی تحقیق کا شاہکارہے جس کودیکھ کر علامہ سید سلیمان ندویؒ جو بقول علامہ اقبال علوم اسلامیہ کے جوئے شیر کے فرہاد تھے ، نے حیرت زدہ ہو کر کہا تھاکہ اس دورمیں بھی اس درجہ دقت نظر اور تحقیق وتدقیق دیکھ کر میں دَنگ رہ گیا ہوں۔ اس میں لمبی تحقیق کے بعد ثابت کیا کہ نصف صاع پونے دوسیر تین ماشہ اور ایک صاع ساڑھے تین سیر چھ ماشہ ہے ۔ اوزان شرعیہ۔
یہی تحقیق ہندوپاک کے تمام مستند علماء وفقہاء نے قبول فرمائی اور اسی پر عمل بھی جاری ہے ۔ چنانچہ عمدہ الفقہ از مولانا زوارحسین شاہ ، فتاوی عثمانی از مولانا محمد تقی عثمانی ، فتاوی دارالعلوم دیوبند، فتاوی رحیمیہ ،نظام الفتاویٰ ، خیر الفتاویٰ ، فتاویٰ حقانیہ ، فتاویٰ دارالعلوم کراچی سب نے اسی تحقیق کے مطابق ہمیشہ احکام صدقہ فطر لکھے ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی نے امداد الاحکام میں لکھاکہ صحابی رسول حضرت زیدبن ثابت ؓ نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد (ایک پیالہ) جس سے صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا اور اس میںدودھ  پانی وغیرہ بھی نوش جان فرماتے تھے اُس پیالے کوسامنے رکھ کر اُسی مقدار کا ایک پیالہ اپنے لئے تیار کرایا تھا۔ یہ پیالہ طویل واسطوں سے گزرتے ہوئے حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی کے پاس پہنچا تھا اور اس کی سند بھی اُن کے پاس تھی۔ اس مبارک پیالے سے دو مرتبہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے گندم بھر کر دیکھا تو وہ پورے دوسیر ہی آیا ۔سبحان اللہ ۔ امدالاحکام ص 43، ج :3۔
اب جب سیر اور تولے ختم ہوکر کلو گرام شروع ہوگئے تو علماء نے اس کی بھی تحقیق کی چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی نے فتاویٰ محمودیہ میں لکھاکہ اب موجودہ وقت میں کلو رائج ہے اس کے اعتبار سے نصف صاع ایک کلو چھ سوتینتیس گرام1.633))ہے۔ یا ایک کلو چھ سو پینتیس گرام1.635) )مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف نے مدینہ منورہ کے ایک معتبر کشمیری صالح ڈاکٹر کو مکلّف بنایا کہ وہ معلوم کرے کہ سعودیہ کے علماء ایک صاع کو کتنے کلو گرام کا مساوی قرار دیتے ہیں تو جواب آیا کہ مدینہ منورہ کے مستند مفتی نے جواب دیاکہ ایک صاع سواتین کلو سے کچھ زائد احتیاطاً ساڑھے تین کلو ہیں۔ اس لئے نصف صاع پونے دو کلو احتیاطاً ہے ۔
حضرت امیر معاویہؓ کا فیصلہ گندم کے متعلق چونکہ نصف صاع کا ہوا اور وہ بعد کے فقہا نے قبول کیا ۔ اس لئے کہ صحابہ کا اجتماعی فیصلہ دین میں وہی درجہ رکھتاہے جو خود قرآن وحدیث کاہے ۔ اس کی مثال حضرت عثمان غنی ؓ کی شروع کردہ اذانِ ثانی ہے جو جمعہ کو ہوتی ہے ۔بخاری کتاب الجمعہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-بہو ،ساس ، داماد ،سسر اگر غریب ہوں تو کیا ان کو زکوٰۃ ،عشر یا صدقہ فطر دے سکتے ہیں ؟
غلام عباس ۔ باندی پورہ کشمیر
 اصول اور فروع کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
جواب:-زکوٰۃکی رقوم ساس ، سسر ، داماد ،بہو ،بہنوئی او ربرادرِ نسبتی کو دینا درست ہے بشرطیکہ وہ مستحق ہوں ۔ جیسے دادا ،دادی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے اسی طرح نانا نانی کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے ۔ اس لئے اصول اور فروع کو زکوٰۃدینا درست نہیں ہے اصول میں والدین اور والدین کے والدین آتے ہیں جبکہ فروع میں اولاد اور اولاد کی اولاد آتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-انسان بکثرت دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ۔اس پر تعجب بھی ہوتا، مایوسی بھی ہوتی ہے ، پریشانی بھی ہوتی اور بہت سارے لوگ تو اللہ سے نااُمید ہوکر دعا مانگنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات اور اسباب کیا ہوسکتے ہیں۔تفصیل سے بتائیے۔
اویس احمد قادری۔جموں
دعائوں کی عدم قبولیت۔۔۔اہم اسباب
جواب:-ایمان والا جب بھی دعا کرتاہے تو اس کو دعا کے عبادت ہونے کی وجہ سے اُسے اجر وثواب ضرورملتاہے ۔ چاہے وہ مقصد حاصل ہویا نہ ہو اور اُس کی طلب کردہ چیز ملے یا نہ ملے ۔ثواب بہرحال ملتا ہے ۔حدیث میں ہے دعا عبادت ہے اور ایک حدیث میں ہے دعا عبادت کا مغز ہے ۔
پھر دعا کے قبول ہونے کے معنیٰ یہ ہیں یا تو وہ چیز بندے کو مل جائے جو اُس نے طلب کی ہے یا اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ اس کی کسی پریشانی کوختم کردیتے ہیں یاکسی آنے والی مصیبت کوہٹا دیتے ہیں یا اُس دعا کا بہتر عوض آخرت میں عطا کریں گے ۔ دنیا میں قبول نہ ہونے والی دعائوں کا ذخیرہ جب آخرت میں بندہدیکھے گا تو وہ تمنّا کرے گا کاش میری دنیا کی ساری دعائیں آخرت کے لئے ذخیرہ رکھی گئی ہوتیں تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ وہاں زیادہ محتاج ہوگا۔کھلونے خریدنے پر رقم خرچ کرنے والے کی کچھ رقم اگر اتفاقاً بچ گئی ہو او روہ اس کے علاج کے کام آئے تو وہ یہی تمنّا کرے گا کاش وہ رقم بھی محفوظ ہوتی تو آج کام آتی ۔
دنیا میں فوراً دعا قبول نہ ہونے کے کچھ اسباب یہ ہیں ۔ بندہ کی کمائی حرام ہو ، کھانا پینا، بدن کا لباس اور گھر کی اشیاء حرام دولت سے حاصل کردہ ہوں تو پھر دعائیں قبول نہیں ہوںگی ۔انسان معصیت کی زندگی گزارتا ہو یعنی اللہ کا فرض پورا نہ کرے اور اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے نہ بچے ، پھر دعا کرے تو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، وجہ بالکل ظاہرہے ۔
کبھی اللہ اس لئے دعا قبول نہیں کرتے کہ بندہ کو اس کے مطلوب کی چیز مل جائے تو وہ اللہ کے سامنے گڑگڑانا بلکنا ،تڑپنا اور بے قرار ہوکر مانگناچھوڑ دے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ عرصہ طویل تک بندے کو بلکتے ، تڑپتے اورگڑگڑانے کے لئے قبولیت دعا کو روک کر رکھتے ہیں پھرقبول کرتے ہیں ۔
کبھی اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرا بندہ مجھ سے اُکتا کر مایوس ہوکر مانگنا چھوڑ دے گا یا مسلسل مانگتا رہے گا ۔جب بندہ نہ تو اُکتاتا ہے ، نہ ہمت ہارتاہے ، نہ مایوس ہوتاہے نہ دل ملول ہوتاہے ۔ وہ اُمید قائم رکھتاہے بلکہ دل میں یقین بٹھا کر رکھتاہے تو پھر عرصہ کے بعد اُس کی دعا قبول ہوجاتی ہے ۔
کبھی بندہ ایسی چیز طلب کرتاہے جو اُس کے خیال میں اس کے لئے اچھی اور بہتر ہوتی ہے مگر اللہ کے منشاء میں وہ اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اس کی دعا قبول نہیں فرماتے ۔ مثلاً کوئی عہدہ ، کوئی رشتہ ، کوئی منصب ۔ کوئی چیز جو بندے کے تصور میں اُس کے لئے بہتر مگر اللہ کے علم میں اس کے لئے نابہتر ہوگی تو وہ قبول نہ ہوگی ۔
کبھی اللہ تعالیٰ بندہ کو کوئی اور چیز دینا طے کرچکے ہوتے ہیں مگر بندہ اُس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگتا ہے تو اس بندہ کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔
عمومی طور پر یہی اسباب ہیں ۔ اہل علم نے ان کے علاوہ بھی کچھ اسباب بیان فرمائے ہیں ۔