کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال:کشمیر میں آج کل شادیوں کا سیزن ہے ۔بہت سارے نکاح اور شادیاں میریج ہالوں اور وسیع مکانات کے پارکوں میں ہوتے ہیں۔اب ایک بدعت یہ شروع ہوگئی ہے کہ دُلہا دلہن کے لئے ایک ڈائس بنایا جاتا ہے ،اُس پر نہایت اعلیٰ قسم کی کرسیاں رکھی جاتی ہیں۔سامنے شادی میں شریک ہونے والے مہمان ہوتے ہیں ،پھر اُن کرسیوں پر دلہا دلہن کو بٹھایا جاتا ہے اور پھر نکاح پڑھا جاتا ہے۔اس نکاح کا نام اصالتاً نکاح رکھا جاتا ہے۔دلہن چونکہ اپنے لباس ِ عروسی میں ہوتی ہے اس لئے بہرحال جب سب کے سامنے بٹھادی جائے تو وہ مرکز ِ توجہ ہوتی ہے۔اس طرز عمل کو جواز کے دائرے میں لانے کے لئے اصالتاً نکاح کا نام رکھنا کیسا ہے؟ بہت سارے ہمارے امام حضرات یا تو اس کو اپنی خاموشی سے گوارا کرتے ہیں ۔اس نکاح پڑھتے ہوئے وہ اس پر کوئی تنبیہ یا نکیر نہیں کرتے یا جائز سمجھتے ہیں،اس پر تفصیل سے جواب لکھا جائے۔
ریاض احمد ۔امام مسجد رشاد بارہمولہ

 

نکاح خوانی کی مجالس میں فیشن پرستی کا رجحان
جواب :اسلام نے خواتین پر اجنبی مردوں سے پردہ لازم کیا ہے اور یہ قرآنِ کریم ،احادیث مبارکہ اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اسلامی طرز عمل سے ثابت ہے ۔اس میں ہرگز کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔نکاح کا عظیم عمل دورِ نبوت سے جاری ہے ،اس میں کبھی بھی مسلمان اپنی دختران کو دلہن بناکر اجنبی مردوں کی محفل میں لاکر نکاح نہیں پڑھتے ہیں۔اب یہ نیا طریقہ یقیناً غیر شرعی ہے۔عام حالات میں خواتین کے لئے پردہ لازم ہے لیکن جب کوئی بیٹی دلہن ہو تو لازماً اُس کا حسب استطاعت بنائو و سنگار ہوتا ہے ۔اب اُس سجائی ہوئی دلہن کو سب کے سامنے بٹھا دینا غیر شرعی تو ہےہی ،یہ سب غیرت اور حیا کے بھی سخت خلاف ہے۔دراصل جب غیرت مٹنے لگتی ہے تو پھر ایسے کام جو مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے تھے، وہی ہونے لگتے ہیں۔
جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہرا ؓ کا نکاح پڑھایا تو اُن کو نہ مسجد میں لایا نہ مجمعٔ عام میں۔پھر صحابہ سے لے کر آج تک پورے عالم میں مسلمان کبھی بھی یہ غیر شرعی کام نہیں کرتے تھے۔اس کو اصالتاً نکاح کہنا بھی یقیناً غلط ہے ۔دراصل دلہن کی طرف سے ہمیشہ وکا لتاً ہی نکاح ہوتا ہے ،ہاں اگر نکاح کی مجلس میں دلہا موجود ہو تو یہ نکاح اصا لتاً نکاح ہے اور اگر نکاح کی مجلس میں دولہا موجود نہ ہو تو یہ وکا لتاً نکاح ہے۔یہاں کشمیر میں پائے جانے والے نکاح ناموں میں اصالتاً اور وکا لتاً کا خانہ صرف شوہر کے لئے ،نہ کہ دلہن کے لئے ہوتا ہے ،اور دلہا کے لئے بھی بہر حال افضل اور بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کی مجلس میں موجود ہو،تاکہ اپنے نکاح کا خود مشاہدبنےاور خود قبول کرے۔تاہم اگر اُس کی طرف سے کوئی وکیل ہو تو تبھی نکاح درست ہے،اس لئے کہ وکیل کا قبول موکل کا قبول کرنا شرعاً و قانوناً طے ہے۔
دراصل دلہن کو دلہا کے ساتھ ڈائس پر یا کرسیوں پر بٹھانا دوسری اقوام کا طرز عمل ہے جو مسلمان کے لئےہرگز درست نہیں۔آخر دلہن کے والدین اور اُس کا ہونے والا شوہر کیسے یہ گوارا کرتا ہے کہ وہ اپنی اُس دلہن کا نظارہ اجنبیوں کو کرائے اور اس پر فخر کرے۔غرض کہ یہ غیر شرعی ہے اور نکاح پڑھانے والے امام حضرات کو ایسے نکاح پڑھانے سے صاف انکار کرنا لازم ہے اور عام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اس غیر شرعی نئے فیشن سے اپنے بچوں کی ازدواجی زندگی کی بنیاد معصیت و گناہ پرنہ رکھیں،ورنہ نکاح کے ناکام ہونے کا قوی خطرہ ہوتا ہے ،جیساکہ مشاہدہ ہوتا رہتا کہ کیسے رشتے بننے کے بعد ٹوٹتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:آج کل یہاں ایک اہم مسئلہ بے شمار علاقوں میں موضوع بحث ہے،اور وہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں بہت ساری مساجد کاہچرائی ،جنگلات ،شاملات وغیرہ میں بنی ہوئی ہیں ۔عرصۂ طویل سے اُن میں نمازیں ادا ہورہی ہیں۔اب یہ سوال ہر جگہ اٹھتا ہے کہ کیا ان مساجد میں نمازیں درست ہیں۔جبکہ اُن مساجد کے نیچے جو زمین ہے وہ باقاعدہ مسجد کے نام الاٹ نہیں ہے۔امید ہے کہ اس اہم سوال کا جواب تحریر کریں گے۔
محمد افضل لون ۔کنگن

 

 

کاہچرائی پر تعمیر شدہ مساجد میں ادائیگی نماز ۔چند اہم مسائل
جواب:حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے دیگر انبیاء کرام ؑپر پانچ چیزوں میں فضیلت د ی گئی ہے ۔اُن میں سے ایک یہ کہ یہ تمام روئے زمین میرےلئے مسجد بنادی گئی ہے۔ایک حدیث میں فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں تمام انبیاء پر فضیلت اور برتری عطا کی گئی ہ۔اُن میں سے ایک یہی ہے کہ تمام زمین آپؐ کے لئے مسجد بنادی گئ ہے۔یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے۔ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ روئے زمین تما کی تمام مسجد ہے۔ان احادیث کی بنا پر اسلامی اصول یہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی نماز پڑھے گا ،اُس کی نماز یقیناً ادا ہوگی،ہاں اگر کسی فرد کی زمین غصب کی گئی اور وہ شخص اُس مغصوبہ زمین نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہ دیتا ہو تو اُس قطعہ میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔باقی ہر جگہ نماز درست ہے۔اس لئے کھیتوں ،باغوں،پارکوں ،پہاڑوں ،کھلے میدانوں ،ائر پورٹوں ،دفتروں ،ریلوے اسٹیشن ،بس اڈے ،گھروں ،سڑکوں کے کناروں ،دکانوں ،سکولوں میں غرض ہر جگہ نماز درست ہے تو جیسے یہ نمازیں درست ہیں،اسی طرح اُن تمام مساجد میں نماز یقیناً درست ہے جو مساجد کاہچرائی ،جنگلات ،آبادی دیہہ،شاملات ،نزول وغیرہ کی زمینوں میں بنائی گئی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا مسئلہ بھی اسی سے جُڑا ہوا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ کیا ان کو شرعی مساجد کہہ سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر اُس مسجد کے تمام متعلقہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اُس مسجد کے متعلق ضروری تفصیلات کسی مستند اور ماہر مفتی کو پیش کرکے یہ فیصلہ کرائیں کہ نماز اگرچہ درست ہے مگر اس مسجد کو شرعی مسجد بنانے کے لئے ہم کو کیا اصول و ضوابط پورے کرنے ہیں اور یہ بات اہمیت سے ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اس مسجد کو شہید کرنا بھی درست نہیں ہےجس کی زمین درج بالا اقسام میں سے کوئی قسم کی ہو۔اور اخیر میں اس مسجد کو شہید کئے بغیر اس کے نیچے کے قطعہ زمین کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر معاوضہ ادا کرنا پڑے ،چاہے بصورت زمین متبادل دیا جائے یا بصورت رقوم مناسب قیمت دی جائے تو مسجد کے منتطمین کو عام مسلمانوں کے تعاون سے یہ کرنا لازم ہوگا۔مسجد شہید کرنا اس لئے درست نہیں کہ یہ سوال صرف زمین کے متعلق ہے ۔اُس کے اوپر جو تعمیر ہے وہ عام مسلمانوں کے مالی تعاون سے ہے،اور اس کو ضائع کرنا ہرگز درست نہیں۔یعنی مسجد شہید کرکے تعمیر پر خرچ شدہ لاکھوں کی رقوم کو ضائع کرنے کے بجائے زمین میں لانے کا حکم ہے۔خلاصہ یہ کہ ان مساجد میں نماز درست ہے نیز ان کو شرعی مساجد بنانے کے لئے ضروری ضابطۂ کی کاروائی لازم ہےاور شہید کرنے کے بجائے زمین کو مسجد کے نام اندراج کرانے کے اقدامات بھی ضروری ہے۔اور یہ ذمہ داری مسجد کی انتظامیہ اور عام مسلمانوں کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال (ا) : کیا بیت المال کے پیسوں سے بستی کا کوئی کام کرسکتے ہیں،مثلاً پانی کے پائپ لگانا یا بجلی ٹرانسفارمر کی مرمت وغیرہ۔
سوال(۲) : اسپتال میں ایمرجنسی ڈیوٹی کی وجہ سے جمعہ نماز یا عید نماز ادا نہ ہوسکی تو کیا کریں؟
سوال(۳) : چار رکعت والی نماز میں اگر غلطی سے پہلی یا تیسری رکعت میں قعدہ (التحیات) کے لئے بیٹھ گئے تو نماز کا کیا حکم ہے،کیا سجدہ سہَو کرنا ہے۔
منیب احمد۔ پٹن

 

 

 

بیت المال میں جمع شدہ رقوم کا مصرف
جواب(ا) : بیت المال میں جمع ہونے والا مالی سرمایہ غرباء ،مساکین کی امداد کے لئے جمع ہوتا ہے ،اُس مال کو رفاہی کاموں میں خرچ کرنا درست نہیں۔اسی لئے سڑکوں کی تعمیر ،اسپتالوں کی مرمت ،بجلی کے کھمبوں وغیرہ کسی بھی رفاہ ِ عام کے کام میں بیت المال کی رقوم خرچ کرنا درست نہیں ہے۔
اگر کسی جگہ ایسی ضرورت ہو ،مثلاً ٹرانسافارمر ،بجلی کے کھمبے ،پانی کے پائپ لائن وغیرہ تو بیت المال کے ذمہ داران اس غرض کے لئے الگ سے مالی تعاون فراہم کریں ،یعنی اس نام سے چندہ کریں پھر یہ ضرورت پوری کریں۔
ترکِ جمعہ پر نبی پاک ؐ کی وعید
جواب(۲) : ایک مسلمان کے لئے جیسے اپنی ملازمت کی مفوضہ ڈیوٹی ادا کرنا ضروری ہے ،اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی لازم کردہ ڈیوٹی یعنی فرض نماز ادا کرنا ضروری ہے۔لہٰذا نماز چاہےوہ پنچ وقتہ نماز ہو یا نماز جمعہ ،اس کے لئے ضروری ہے کہ شفٹ کرکے نماز ادا کریں۔ترک جمعہ پر جو وعید ہے ،وہ ملحوظ رکھیں ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،جو شخص جان بوجھ کر تین جمعہ ترک کرے گا ،اللہ اُس کے دل پر مہر مار دیں گے ،(موطا مالک)دوسری حدیث میں جو شخص بغیر عذر کے تین جمعہ چھوڑ دے ،وہ منافق ہے(صحیح ابن حبانؒ)
تیسری رکعت میں تشہد پڑھنے پر سجدۂ سہَو لازم
جواب(۳) : جس شخص نے بھول کر پہلی یا تیسری رکعت میں تشہد پڑا ،اُس کو اخیر میں سجدۂ سہَو کرنا ضروری ہے۔اگر کوئی شخص صرف بیٹھ گیا اور اتنی دیر بیٹھا جتنی دیر جلسۂ استراحت ہوتا ہے تو پھر صرف بیٹھنے پر سجدہ سہَط نہ ہوگا ۔اس لئے کہ جلسۂ استراحت بھی احادیث سے ثابت ہے۔ہاں جب التحیات مکمل یا کچھ حصہ پڑھے تو سجدہ سہَط لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا باجماعت نماز نہ پڑھنے سے انسان فاسق و فاجر ہوجاتا ہے؟
فیضان منظور ۔بارہمولہ

 

 

بلاعذر باجماعت میں شرکت نہ کرنا سخت گناہ
جواب :نماز باجماعت پڑھنے کی قرآن و حدیث میں سخت تاکید ہے ۔قرآن کریم میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :ترجمہ۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔حدیث میں ہے ۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرا دِل چاہتا ہے ،اُن لوگوں کے گھروں کو آگ لگادوں جو بلا عذر اپنے گھروں میںنماز پڑھتے ہیں۔یہ حدیث بخاری ،مسلم ، ترمذی وغیرہ حدیث کی کتابوں میں ہے۔اس کے علاوہ اور بہت ساری احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنےکی سخت تاکید ہے۔اس لئے بلا عذر و مجبوری کے ترک جماعت کرنا سخت گناہ ہے۔ملاخطہ فرمایئے ،فضائل نماز۔ از شیخ الحدیث حضرت مولانا ذکریا ؒ،یا اس سے بڑی حدیث کی کتابیں ،جن میں نماز با جماعت کے فضائل اور ترکِ جماعت پر سخت وعید یں بیا ن ہوئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: چند جمعہ پہلے ریڈیو میں ایک صاحب نے اپنے خطاب میں کہا ،اگر کوئی شخص دوسرے سے واپسی کی رخصت لیتے ہوئے یہ کہے کہ کیا مجھے اجازت ہے،جواب میں وہ یہ کہے ،بسم اللہ۔تو اس کے ایمان کو خطرہ ہے۔بیان کرنے والے بزرگ نے کہا کہ الفقہ الاکبر کی شرح جو ملا علی قادریؒ نے لکھی ہے ،اس میںیہ مسئلہ لکھا ہے کہ ایسا کہنے والے کے ایمان کو خطرہ ہے۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ رخصت دیتے ہوئے ’اللہ کے حوالے‘ کہنے کے بجائے اگر بسم اللہ کہا جائے ،تو کیا واقعی ایمان کو خطرہ ہے؟ اور ملا علی قاریؒ کی کتاب میں کیا لکھا ہے ،اس کی وضاحت فرمائیں۔
امتیاز احمد ۔ اسلام آباد

 

 

اجازت ِ رخصت ۔فی امان اللہ کہنا افضل
جواب : اگر کوئی شخص رخصت ہوتے ہوئے جانے کی اجازت مانگے تو رخصت دینے والے کو جواب میں فی امان اللہ یا اللہ کے حوالے بولنا بہت بہتر اور افضل ہے۔لیکن اگر کسی نے جواب میں بسم اللہ کہہ دیا تو اس سے ایمان کو کوئی خطرہ ہرگز نہیںہے۔جواب دینے والا اصل میں یہ کہتا ہے کہ اللہ کا نام لے کر چل پڑو۔دراصل ہر بسم اللہ کے ساتھ ایک لفظ محذوف ہوتا ہے اور وہ لفظ وہی ہوتا جو اُس فعل کو بتائے جس کے لئے بسم اللہ پڑھا گیا ہے۔جیسے کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ کہنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ کا نام لے کر کھاتا ہو ں یا پیتا ہوں۔اسی طرح یہاں جواب دینے والا در حقیقت یہ کہتا کہ تم اللہ کانام لے کر رخصت ہوجائو،یا میں تم کو اللہ کے نام لے کر رخصت کرتا ہوں۔
شرح فقہ اکبر میں جہاں یہ مسئلہ لکھا ہے وہاں آگے اس کی نفی بھی کردی گئی کہ یہ مسئلہ بے اصل ہے کہ ایسے موقعہ پر بسم اللہ کہنے سے کفر کا اندیشہ ہے ۔تو یہ مسئلہ تردید کے لئے لکھا ہے نہ کہ بیان کے لئے۔