کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

پائجامہ اور پینٹ موڑ کر
نماز پڑھنا مکروہ نہیں
سوال:-میں ایک کالج اسٹوڈنٹ ہوں اور ماڈرن ہوں ۔ پچھلے کچھ عرصہ سے نماز پڑھنا شروع کردی ہے۔میں چونکہ تنگ وچست جینز پہنتاہوں اس لئے نماز کے وقت ٹخنوں سے موڑ دیتاہوں ۔ ایک صاحب نے مجھ سے یوں کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا سمیٹنے اور موڑنے سے منع کیا ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نہ کپڑوں کو سمیٹوں اور نہ بالوں کو۔(بخاری)
مسائل کی کتابوں میں لکھاہے کہ کپڑا موڑنا مکروہ ہے اس لئے پائجامہ اور پینٹ موڑ کرنماز پڑھنا مکروہ ہے اور ایسی حالتوں میں پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے۔اب میرا سوال یہ ہے کہ ٹخنوں سے موڑنا کیاہے؟
محمد محسن ……جموں
جواب:-ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے کے متعلق احادیث میں سخت ممانعت ہے ۔ یہ احادیث بخاری، مسلم، ترمذی ،ابودائود ،موطا مالک ، ابن ماجہ ، نسائی ، مسند احمد ، بیہقی ، جمع الفوائد او رشمائل ترمذی میںہیں ۔ یہ احادیث حضرت ابوہریرہؓ ، حضرت ابوسعید ؓ ، حضرت جابرؓ ، حضرت خدیفہ ؓ، حضرت سمرہؓ ، حضرت ابوذرؓ،حضرت عائشہؓ ، حضرت ھُبیبؓ،حضرت مغیرہ ؓ،حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہیں (رضی اللہ عنہم)۔ چند احادیث یہ ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ازار کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں جائے گا ۔ (بخاری)۔حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار کے متعلق جو فرمایا وہی حکم قمیص کے متعلق بھی ہے ۔ (دائود)۔اس سے معلوم ہواکہ یہی حکم پتلون کے متعلق بھی ہے ۔
حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ کپڑے کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے گا وہ جہنم میں جائے گا ۔(نسائی ، ابو دائود وغیرہ)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ازار ٹخنوں تک ہونا چاہئے اور اگر اس سے نیچے ہوا تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میرا ازار زمین سے لگ کر آواز دے رہا تھا ۔ توحضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں عبداللہ ہوں تو ارشاد فرمایا اگر تم عبداللہ ہو تو اپنا ازار اُوپر رکھو ۔ میں نے فوراً اوپر کردیا پھر موت تک کبھی بھی ٹخنوں سے نیچے نہیں رکھا۔ (مسنداحمد)
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین افرا د کی طرف اللہ نظرِ رحمت نہیں فرمائیں گے ۔ نہ اُن کو پاک کریں گے اورنہ ان سے ہم کلام ہوں گے۔ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ۔ احسان کرکے احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا دوکاندار ۔ (مسلم ، ترمذی ،ابودائو ، نسائی ، ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کبروبڑائی کی وجہ سے کوئی بھی کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی طرف نگاہ بھی نہ کریں گے ۔ابودائود ، نسائی وغیرہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سفیان کی کمر پکڑ کر فرمایا ۔ اے سفیان اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے مت رکھنا ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں فرماتے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا رکھتے ہیں۔حضرت جابرفرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت کے فاصلے تک پہنچتی ہے ۔پھرفرمایا کہ اللہ کی قسم ماں باپ کا نافرمانی کرنے والا ،رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا بوڑھا زناکار،اور ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ایسے لوگ ہیں جو جنت کی بُو بھی نہ پائیں گے ۔ (طبرانی)
حضرت ابوہرہ سے روایت سے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اُس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے ہوئے ہو۔ (ابودائود)۔
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز میں اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے رکھے وہ اللہ کے غضب سے نہ حرم شریف میں محفوظ رہے گا نہ حرم کے باہر محفوظ رہے گا۔(ابودائود)
اِن تمام احادیث سے ثابت ہواکہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا چاہے قمیص ہو،ازار بند ہو ،شلوار ہو ،پتلون ہو ، تہہ بند ہو یا لمبا کوٹ ہو ہرگز دُرست نہیں ۔اور آخری دوحدیثوں سے تو یہ معلوم ہواکہ نماز بھی قبول نہ ہوگی۔اب اگر کسی شخص کی چست پتلون یاشلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو اس کے لئے نماز پڑھنے میںدو ہی صورتیں ہیں یا تو ٹخنوں سے موڑ کر وہ نماز اداکرے گا یا ٹخنوں سے نیچے جوں کا توں رکھ کر نماز پڑھے گا ۔اس دوسری صورت میں وہ درج بالا تمام احادیث کی خلاف ورزی کرے گا ۔اس لئے اُس کے لئے اصل حکم تو یہ ہے کہ کپڑا اتنا لمبا ہوناہی نہیں چاہئے کہ جوٹخنوں سے نیچے ہو ۔اور اگر وہ ٹخنوں سے نیچے ہو تو نما زمیں وہ نیچے سے موڑ دے تاکہ کم از کم نماز میں ٹخنے کھلے رہیں اور اوپر کی احادیث پر نماز کے اندر عمل ہوسکے۔
اب یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا موڑنے سے منع کیاہے یہ صریحاً غلط ہے ۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔مختلف کپڑا موڑنے کی بہت ساری صورتیں رائج ہیں مثلاًقمیص یا شرٹ کا کالرموڑا ہوا ہوتاہے ، کوٹ کا کالر سینے سے موڑا ہوا ہوتاہے ۔ آستین لمبی ہوتو کلائی سے موڑی ہوئی ہوتی ہے ۔لمبی گرم بنیان پیٹ کے پاس ناف کے نیچے موڑ دی جاتی ہے ۔آج کل گرم ٹوپیاں دوہری کرکے موڑ دی جاتیں۔ اسپتالوں میں اَپرن موڑنا کھلا مشاہدہ ہے ۔اُوورکوٹ کا پورا کالر سینے کے نیچے تک موڑا ہواہوتا ہے۔توکیا یہ سب لوگ اپنی پڑھی ہوئی نمازیں محض اس لئے دوبارہ پڑھیں گے کہ اُن کے یہ مختلف کپڑے موڑے گئے تھے ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ موڑنے کی ممانعت صرف پائجامہ ، شلواراور پینٹ پتلون کے لئے ہے تو یہ تخصیص خودساختہ اور بلادلیل ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ارشاد مبارک کیا ہے اور اس کے معنی کیا ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ ارشاد گرامی یہ ہے لا یکف ثوبہ ولا مثبعرہ نہ اپنے کپڑوں کو سمیٹے نہ اپنے بالوں کو۔اس کے معنی موڑنا ہرگز نہیں اس لئے بال موڑنا نہ ممکن ہے ۔نہ اس کی ممانعت کی کوئی وجہ ہے ۔ نہ کسی لغت نے یہ معنی بیان کئے ہیں ۔دراصل اہل عرب بہت لمبے چوڑے کپڑے پہننے کے عادی تھے ۔جیسے کہ آج بھی بہت سے عرب اور حبشی نہایت لمبی چوڑی عبائیں ،قبائیں ، حُبّے پہنتے ہیں جن کو ہروقت سمیٹ کر رکھنا پڑتاہے ۔ جیسے مختلف عرب شاہوں کو زیب تن کرنا آج بھی رائج ہے اور سمیٹے بغیر ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے ۔ایسے کپڑے پہن کر اُن کو سمیٹ کر رکھیں اور نماز پڑھیں اس کو اللہ کے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا کہ یہ خشوع وخضوع میں مُحل ہوتاہے اور رکوع سجدے میں سمیٹے رکھنے کا تکلف کرنا پڑتاہے۔ لہٰذا جس شخص نے یہ لکھاہے کہ پاجامہ اور پینٹ کو موڑ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور یہ نماز واجب الاعادہ ہے یہ سراسر غلط ہے۔ یہ خودساختہ اور غلط تشریح ہے او رٹخنے سے نیچے کپڑے پتلون پینٹ پاجامہ کے جو ممنوع ہونے کا حکم ہے اُس میں تحریف کرکے اس کی خلاف ورزی کرنے کا غلط مسئلہ لکھا گیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ یوں لکھاجاتاکہ ٹخنوں سے نیچے ہرگز کوئی کپڑا نہ ہو اور کم از کم نماز میں اس سے اجتناب کیا جائے۔لیکن کہایہ جارہاہے کہ ٹخنوں سے کپڑا نہ موڑا جائے ۔ یعنی جس فعل سے روکاجانا ضروری ہے اُس کا بالواسطہ حکم دیا جارہاہے ۔ اور غضب یہ کہ اس کو حکم شرعی قرار دیا جارہاہے ۔
ولا یکف ثوبہ جو حکم رسولؐ ہے اس کے معنی فتح الباری عمدۃ القاری ، ارشاد الساری وغیرہ اُن کتابوں میں دیکھے جائیں جو بخاری کی عظیم مستند شروحات ہیں ۔ نیز لغاتِ حدیث کی مستند کتاب مثلاً الفہار یہ فی غریب الحدیث از علامہ ابن اثیر،الفائق از علامہ زمخشری ،مجمع البحار از علامہ طاہر پٹنی ملاحظہ کی جائیں ۔
خلاصہ یہ کہ ٹخنوں سے کپڑا رکھنا حدیث کی خلاف ورزی ہے اور کم از کم نماز میں موڑ کر ٹخنوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلاق شدہ جوڑے کے بچوں کی پرورش
سوال:۔اگرکسی عورت کی طلاق ہوجائے تو طلاق کے بعد بچوں کی تعلیم وتربیت اور کفالت کس کے ذمہ ہے ۔ اگربچے شیر خوار ہوں تو کیا اس صورت میں عورت بچے کو اپنے پاس رکھنے کا تقاضا کرسکتی ہے ۔ اگر مرد اس پر رضامند نہ ہو تو اس صورت میں بچوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ۔ اگر بچے پرورش کے لئے ماں کے حوالے کئے جائیں تو کیا اس صورت میں بچوں کی عمر کی کوئی حد ہے جس عمر کی حد تک وہ ماں کے پاس رہیں گے ۔
محمدیوسف ، سوپور
جواب:-طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق ماں یعنی مطلقہ عورت کو حاصل ہے ۔ اس کوشریعت میں حقِ حضانت کہتے ہیں ۔اگر ماں از خود اس حق سے دستبردار ہوجائے تو اس کے لئے یہ بھی جائز ہے ۔ اگر ماں بچوں کو بغرض پرورش اپنے پاس رکھناچاہتی ہے تو بچوں کے باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ جبراً بچے ماں سے چھین لے ۔ بچوں کی پرورش کا یہ حق ماں کو حاصل رہنے کی مدت یہ ہے ۔ لڑکا تا عمر سات سال اور لڑکی تا عمر نوسال۔جس عرصہ میں بچے ماں کے پاس رہیں گے اُس پورے عرصہ کا نفقہ بچوں کے باپ پر لازم ہے ۔ یہ نفقہ باپ کی مالی وسعت کے مطابق کم یا زیادہ ہوسکتاہے لیکن بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لئے جو نفقہ ہو وہ بہرحال لازم رہے گا ۔ اس سلسلے میں ایک آسان اصول یہ ہے کہ باپ جب بچے اپنے پاس رکھے گا تو پالنے پوسنے میں ،دوا علاج میں اور تعلیم وتربیت میں جو جو خرچہ باپ اپنے گھر میں کرے گا وہی خرچہ وہ اُس صورت میں دے جب بچے ماں کے پاس ہوں اور اگرماں نے پرورش کرنے کی اُجرت طلب کی تو وہ اُجرت بھی باپ پر قاضی کے فیصلے کے بعد لازم ہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- اگرکسی ماں باپ کی اولاد،خاص کر بالغ بیٹا یا بیٹی ، نافرمانی کے سبب ان کی بدنامی کا باعث بن جائے تو والدین کو کیا کرنا چاہئے؟
عمرمختار…سرینگر
اولاد نافرمان ہوجائے تو والدین کیا کریں
جواب:-نافرمان اور بدنامی کا باعث بننے والی اولاد کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ اُن کو دیندارصالح اور بااخلاق بنانے کی سعی کرنے کے ساتھ بُری صحبت سے دور رکھا جائے ۔ یہ لڑکا ہو تو دعوت کے کام کے ساتھ جوڑ ا جائے تاکہ اُس میں اطاعت والدین کی فرمان برداری کا مزاج پیدا ہو ۔کوئی بھی انتقامی کارروائی اُس کی خرابی کی اصلاح نہیں بلکہ اُس کے مزید خراب ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اصلاحی کتابیں پڑھانے کا اہتمام بھی مفید ہے ۔مثلاً ’’مثالی نوجوان‘‘ ،’’نوجوان تباہی کے راستے پر‘‘ ، ’’عمل سے زندگی بنتی ہے‘‘ اور’’ حیا وپاکدامنی ‘‘ایسے نوجوانوں کے لئے مفید ہیں۔