کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

سوال : (۱)  امام صاحب کا وضو ٹوٹ گیا،اگر وہ جہری نماز پڑھا رہا ہے اور سورت پڑھ رہا ہے ،اب جو مقتدی اس کی جگہ آئے گا ،اگر وہ سورت اُس کو یاد نہیں ہوگی تو وہ کیا کرےگا،اسی طرح اگر امام صاحب سری نماز پڑھا رہا ہو تو وہ کیا کرےگا؟
سوال: (۲)  موجودہ دور میں مستورات کی دینی تربیت کی کوئی خاص تجویز بتائیںکیونکہ موجودہ دور میں وہ مسجد نہیں جاسکتیں۔گھروں میں بھی تربیت کا کوئی خاص نظام نہیںاور مدرسہ بھیجنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں،اور ہمارے یہاں درسگاہ تو ہے لیکن کوئی مقامی معلمہ نہیں ہے۔
محمد شفیع خواجہ۔سوپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوران ِ نماز امام کا وضو ٹوٹ جائے تو۔۔۔۔؟
جواب۔۱ :  امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ مقتدی حضرات میں جو مناسب تر شخص ہو ،اُسی کو اپنا نائب بنائے،پھر یہ نائب آگے کی نماز پڑھائے۔اگر سورہ فاتحہ کے بعد اتنی قرأت ہوچکی ہو ،جس سے نماز درست ہوجاتی ہے ،جس میں تین چھوٹی آیات ہوں تو اب یہ نائب آگے رکوع کرے،اگر اتنی قرأت نہ ہوئی ہو تو پھر اس کو اختیار ہے کہ جو سورت پڑھنا چاہے اُسے اختیار ہے۔کوئی مقررہ سورت لازم نہیںاور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ جو سورت امام صاحب پڑھ رہے تھےوہی سورت یہ بھی پڑھے۔
بچیوں کی دینی تربیت والدین اور سماج کی اہم ذمہ داری
اصول، احتیاط اور مناسب طریقۂ کارلازم
جواب۔:۲خواتین کی دینی تربیت و تعلیم اُمت کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اس میں غفلت برتنے کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیںاور آئندہ بھی زیادہ بُرے نتائج سامنے آنا ممکن ہیں۔بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کی پہلی ذمہ داری والدین کی ہے۔وہ جس طرح اپنی بچیوں  کی عصری تعلیم کے لئےسخت فکر مند ہوتے ہیں اور اچھے سے اچھے سکول میں پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں،اُسی طرح جب دینی تعلیم و تربیت کے لئے فکر مند ہونگےتو ضرور اس اہم ضرورت کا حل بھی نکلے گا ۔پہلا کام یہ ہے کہ اپنے گھر میں دین کی بنیادی تعلیم کا انتظام کریں،چاہے گھر کی کوئی خاتون پڑھائے یا پڑھانے والا باہر سےآئے،مگروہ محرم ہو۔دوسرے ہر محلہ میں مکتب قائم کئے جائیںاور یہ محلے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کیلئے دو مکاتب قائم کریں۔طلبا کے لئے الگ اور طالبات کے لئے الگ۔پھر طالبات کے لئے معلمات کا انتظام کرنا پورے محلے والوں کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسجد کی انتظامیہ ہی مکتب کا انتظام سنبھالے،یا محلے میںالگ سے مکتب کی انتظامیہ کھڑی کی جائے۔وہ جگہ ،معلم اور معلمہ کا انتظام کرے۔معلم اور معلمہ کا تقرر ،تنخواہ اور معائنہ اس کی ذمہ داری ہوگی۔اگر یہ نہ ہو تو ہر باپ اپنی بیٹی ،ہر بھائی اپنی بہن اور ہر شوہر اپنی زوجہ کے لئے کسی دیندار ،قابل اور تجربہ کار خاتون سے آن لائن پڑھانے کا انتظام کرےاور ویب سائٹوں پر جو معتبر ،مستند اور مکمل دیندار خواتین بچیوں کے پڑھانے کا کام کرتی ہیں ،اُن سے استفادہ کیا جائے۔ایسی ویب سائٹس جن کے ذریعے درست قرأت ،ضروری مسائل اور خواتین کی تربیت سے متعلق امورتفصیل سے بتائے جاتے ہیں اور دینی ذہن بنایا جاتا ہے،اُن سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ساتھ ہی بچیوں کی تربیت کے متعلق ضروری ہے کہ کم از کم تین چیزوں سے سخت پرہیز کرائیں،ہر نامحرم لڑکے سے دوری قائم رکھنا چاہئے ،وہ ماموں زاد ،خالہ زاد ،پھوپھی زاد ،چاچا زاد ہی کیوں نہ ہو۔دوسرے موبائیل کے غلط استعمال سے دور رکھنا ،تیسرے فلموں ،ڈاموں سے دور رکھنا اور بے دین خواتین سے دور رکھنا ۔ان امور کے اپنانے سے امید ہی نہیں یقین ہے کہ خواتین خصوصاً بچیوں کی تعلیم و تربیت کا کام مفید ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : (ا) مقروض کس صورت میں زکوٰۃ لینے کا مستحق بن سکتا ہے؟
سوال: (۲) زکوٰۃ کے معاملے میں سونے اور چاندی کے نصاب میں تفاوت کیوں ہے؟
محمد رفیق ۔بارہمولہ کشمیر
کیا مقروض زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے؟
جواب : (۱) جو شخص مقروض ہو اور اُس کے پاس الگ سے اتنی رقم نہ ہو کہ وہ قرض ادا کرسکے ،نہ اُس کے پاس سونا چاندی اتنا ہو کہ وہ قرض کی رقم منہا کرکے صاحب نصاب ہو ،تو اس شخص کو زکوٰۃ لینے کی اجازت ہے۔اگر کسی کے پاس قرض کی مقدار کم کرنے کے بعد بقیہ رقم اتنی ہو ،تو اُس کو زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔اسی طرح اگر کسی کے پاس رقم تو نہ ہومگر گاڑی ،اسکوٹر ،مہنگا سیل فون ،قالین وغیرہ مہنگی اشیا ہوں تو اُس کو بھی زکوٰۃ لینا صرف اس وجہ سے جائز نہیں کہ اُس پر قرضہ ہے۔اگر کسی کا اچھا ذریعہ ہو تو صرف بنک کے قرض کی بنا پر اس شخص کو زکواۃ لینا جائز نہ ہوگا۔
زکوٰۃ : سونے اور چاندی میں تفاوت کا معاملہ
جواب:(۲) حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے مبارک زمانے میں زکوٰۃ کا نصاب مقرر فرمایا تھا تو وہ قیمت کے اعتبار سے مساوی تھا ،یعنی چاندی دو سو درہم اور سونا بیس مثقال۔اس کی مقدار آج یہ ہے ۔ساڑھے باون تولہ چاندی اور ساڑھے سات تولہ سونا۔اور آج چونکہ گرام ہیں ،اس لئے یہ مقدار ۶۱۲گرام چاندی اور سونا ۸۷گرام ۔سونا اور چاندی میں مقدار کا یہ فرق اس وجہ سے رکھا گیا تھا تاکہ ان کی قیمت میں تفاوت نہ رہے۔چنانچہ اُس وقت تفاوت نہ تھا،آج کے عہد میں قیمتوں کے غیر متوازن اُتار و چڑھائو کے نتیجے میں غیر معمولی تفاوت ہوگیا ہے۔چنانچہ اگر کسی کے پاس ۶۱۲گرام چاندی ہو تو اس پر زکوٰۃ لازم ہوجاتی ہے جس کی مالیت آج تقریباً پنتالیس ہزار روپے ہے،جبکہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو اور اس کے علاوہ نہ رقم ہو ،نہ ہی چاندی ہو تو ۸۷گرام سے کم سونے کی مقدار پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی۔حالانکہ پچاسی گرام سونے کی قیمت لاکھوں روپے ہے۔اب ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اس تفاوت کی موجودگی کو تسلیم کرکے زکوٰۃ کی ادائیگی کریں۔۶۱۲گرام چاندی یا اس کی قیمت ہو تو زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوگی۔اور اگر کسی کے پاس اَسی پچاسی گرام سونا ہو مگر نہ رقم ہونہ چاندی ،تو اس کے ذمہ زکوٰۃلازم نہ ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کیا وضو سے پہلے استجا کرنا ضروری ہے ۔اس مسئلے کی وجہ سے کشمیر میں بہت کنفوژن ہے۔برائے کرم وضاحت فرمائیں۔
سجاد احمد لون ،خیار بانڈی پورہ
وضو اور استنجاءکی ضرورت
جواب : وضو سے پہلے استنجاءصرف دو صورتوں میں ہے اور وہ یہ کہ اگر کسی نے پیشاب کیا یا بیت الخلا کی ضرورت پوری کی ہو تو ان دو صورتوں میں پہلے استنجاءکرنا ضروری ہے ،پھر وضو کرنا ہوگا ۔اگر ان دو صورتوں کے علاوہ کسی اور وجہ سے وضوٹوٹ گیا ہو ،مثلاً  ہَوا خارج ہوگئی یا نیند پڑگئی ہو،تو ان صورتوں میں صرف وضو کرنا ہوگا ،استنجاءکرنے کی ضرورت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : کیا راستے میں پڑی ہوئی کوئی تکلیف دہ چیز جیسے کیل،میخ اُٹھانا اور پھر اسے اپنے لئے استعمال کرنا درست ہے؟ یا اسے کہیں پھینک دینا بہتر ہے؟
راستے میں اُٹھائی ہوئی چیز کا استعمال
جواب :راستے میں گری پڑی چیز اگر قابل استعمال اور قابل استفادہ ہو تو پھر ضائع کرنا درست نہیں،بلکہ استعمال کرنا بہتر ہے۔اب اگر کسی غریب شخص کو دے دی جائےتو بہت بہتر ،اور اگر خود اپنے استعمال میں لائے تو یہ بھی بہتر ہے تاکہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ساتھ ہی یہ نیت کرے کہ جس کی یہ چیز ہے اُسے اس کا ثواب مل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔کئی مساجد میں عشاء کی نماز اپنے اصل وقت سے پندرہ بیس منٹ پہلے ادا کی جاتی ۔ کیا ہم اس جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں یا پڑ ھ کراپنے گھر میں الگ جماعت قائم کرکے نماز ادا کریں۔ جواب عنایت فرمائیں؟
ایک سائل
غروبِ شفق سے پہلے عشاء درست نہیں
جواب:۔ نماز عشاء میقات الصلواۃ میں دکھائے گئے وقت سے پہلے پڑھنا درست نہیں ہے۔ ہاں صرف دس پندرہ منٹ پہلے اذان پڑھی جائے اور اس کے ساتھ ہی نماز بھی پڑھی جاتے تو اس کی گنجائش ہے۔ نماز پڑھنے والے پر لازم ہے کہ صحیح وقت پر نماز پڑھے، اور صرف چند منٹ کی وجہ سے اپنی نماز خراب نہ کرے ۔اگر نماز مغرب غروب آفتاب سے پہلے پڑھی جائے تو یقیناً وہ درست نہیں۔ اسی طرح نماز ِ عشاء اگر غروب شفق سے پہلے پڑھی جائے تو وہ درست نہ ہوگی۔غروب شفق سے وقت عشاء احادیث سے ثابت ہے۔ اس کا وقت میقات الصلوۃ وغیرہ مستند تقویم ( کلینڈر) سے معلوم ہوگا۔