کتاب۔بہترین دوست اوررفیق ساتھی حرفِ حق

قیصر محمود عراقی

جی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور اپنا تعارف کرانے سے پہلے تھوری تمہیدی گفتگوآپ کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں کہ انسان اپنے شعور سے لیکر اپنی موت تک زندگی کے تمام تر مراحل میں دوستی اور رفاقت کا محتاج ہوتا ہے، اور وہ لوگ نہایت خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں اچھے اور بہترین ساتھی اور دوست میسر آتے ہیں، کیونکہ زندگی میں دوست نہیں ملا کرتے بلکہ دوستوں میں زندگی ملا کرتی ہے، جنہیں اچھے ساتھی میسر آجائے وہ کبھی دنیا میں تنہا یا بے یارومددگار نہیں رہتا، کیونکہ زندگی کے ہر موڑ پر ان کے دوست ان کے ہم قدم اور رفیق ہوتے ہیں ۔
جناب! میں ہوں آپ کی بہترین ساتھی اور دوست ’’کتاب‘‘،میرے بارے میں تو آپ نے بہت کچھ سن ہی رکھا ہوگا ، جی جی بالکل صحیح یاد کیا’’میں وہی ہوں کہ جب آپ کا دوسروں پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور سب آپ کو تنہا چھوڑ کر چلے جاتے ہیںتو میں ہی آپ کے ساتھ رہتی ہوںاور آپ کو حوصلہ دیتی ہوں اور مجھ سے آپ اپنے دکھوں اور غموں کا مداوا کرتے ہیں۔ میرے ہی ذریعے آپ فکر کے سمندرسے گوہرِ نایاب پاتے ہیں اور اپنے تخیلات کو مجسم تعمیر میں ڈھالتے ہیں۔ میری ورق گردانی سے ان لوگوں سے تعارف حاصل ہوتا ہے جو ہمارے درمیان موجود نہیں ہوتے ، میں نے لوگوں کو انبیاء جیسی عظیم ہستیوں کی سیرت وکردار اور ان کے عظیم کارناموں سے متعارف کروایا ہے، جو مجھ سے محبت رکھے گا، اس کے دل میں علم کی محبت ہمیشہ رہے گی۔ میں زندگی کے ہر کڑے وقت میں آپ کو حوصلہ اور ہمت دیتی ہوں، مجھے پڑھتے ہوئے جو آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں ،ان کے بھی جوابات دیتی ہوں۔ میں ایک ایسا باوفا ہیرا ہوں جو آپ کو دنیا کے نشیب وفراز کے بارے میں آگاہی دیتی ہوں۔ آج کے دور میں کوئی آپ کو اچھے راستے کا پتہ نہیںدے سکتا ، گویا کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر لیکن افسوس جب انسان ترقی کے زینے چڑھ گیا اور جہاں اس نے جدید ٹکنالوجی سے خود کو آراستہ کیا اور دنیا میں اپنا لوہا منوایا وہی میری اہمیت میں بھی کمی آگئی ہے۔ پہلے لوگوں میں ذاتی لائبریریوں کا رجحان پایا جاتا تھا لیکن اب لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں، لائبریریوں کا قیام تو دور کی بات پہلے سے گھر میں موجود کتابوں کو بھی مساجد اور مدارس میں ڈلوادیئے جاتے ہیں۔ آپ لوگوں کی بدنصیبی ہے جو آپ مجھ سے دور رہتے ہیں اور مجھ سے دور ہونے کی وجہ سے آپ غفلتوں میں پڑے رہتے ہیںاور آپ کی نسلیںاپنی تاریخ سے آگاہ نہیں ہے۔
آج میں ایک پرانی بوسیدہ کتاب کی صورت میں ایک دکان کے کونے میں پڑی اپنی گذشتہ زندگی پر غور کرتی ہوں تو میرا دل بھر آتا ہے اور اپنے بے بسی اور انسان کی بے اعتنائی پر سوائے دکھ اور افسوس کے کچھ نہیں کرسکتے۔ چونکیئے نہیں! میں ’’بانگ درا‘‘ہوں، جی ہاں وہی ’’بانگِ درا ‘‘جس کی نظموں اور غزلوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں ولولہ تازہ پیدا کردیا تھا ، یقین ہے کہ آپ میرے خالق کو جان گئے ہوں گے؟ علامہ اقبالؔکے نام سے کون مسلمان واقف نہیں ہے ، میں ان ہی کی افکار تازہ کی کتابی شکل ہوں ، یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی سخن شناس مجھے نہ دیکھے ، نہ پہچانے تو میں ایک بے کار بوسیدہ اوراق کا پلندہ ہوں، لیکن کبھی ہم خوبصورت تھے، کتابوں کی سجی ہوئی میز پر رکھے ہماری شان نرالی تھی، پھر ایک دن مجھے ایک اسکول ٹیچر نے خرید لیا، وہ شخص باذوق اور علامہ اقبالؔکی شاعری کا بہت دلدادہ تھا اور اسے علم تھا کہ کتاب کو کس طرح رکھا جاتا ہے اور کیسے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں کتابوں پر جلد چڑھا کر شائع کرنے کا رواج نہ تھااس لئے اس نفیس ذوق انسان نے مجھے باقاعدہ جلد کروایا اور اپنی سبز رنگ کی شاندار سی ریک میں احتیاط سے رکھ دیا۔ اس عمل سے جہاں تک میری خوبصورتی میں اضافہ ہوا وہاں میرے اوراق اور ان کے مندرجات کی حفاظت ہوگئی، وہ شخص مجھے بہت عزیز رکھتا، فارغ اوقات میں وہ میرے اشعار پڑھتا ، ان پر غور کرتا اور پھر علامہ مرحوم کا پیغام اپنے شاگردوں تک پہنچاتا رہا، کوئی دس بارہ سال تک میں اس کی حفاظت میں رہی پھر اچانک اس کی وفات ہوگئی۔ اب میں اس الماری میں بند ہوا کو بھی ترسنے لگی، یقین مانیں میں اب کسی انسانی ہاتھ کے لمس کو بھی ترس گئی، وقت گذرتا رہا، بارشوں کے دنوں میں نمی اور سیلن اس الماری میں دیمک کی رسائی ہوگئی اس نے دیگر بہت سی کتابوں کو چاٹنا شروع کردیا، سب سے پہلے اس نے ہر خوبصورت جلد پر اپنے دانت جمائیں اور چند دنوں میں اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا، میں نے بڑی دعائیں کیں کہ کوئی الماری کھولے اور ہماری حالتِ زار کو دیکھے مگر شاید ہماری دعائوں کی قبولیت کا وقت نہ تھا، تھوڑے ہی عرصے میں دیمک نے میرے اوراق میں ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک بڑے بڑے سوراخ ڈال دیئے ، میں حیرت زدہ تھی مگر اس نے میرا مطالعہ ہی کرنا تھا تو اس طرح ظلم نہ کرتی مگر شاید اس کا ارادہ مجھے پڑھنے کا نہ تھا، مجھے پھاڑنے کا نہ تھا بلکہ چاٹنے کا تھا۔ ایک دن اس ٹیچر کے بیٹے نے الماری کھولی تو اس پر صورت حال کھلی ، اس نے ہماری دیکھ بھال کی بجائے ایک انقلابی فیصلہ کیاکہ گلی سے گذرنے والے ایک ردی خریدنے والے آدمی خریدنے والے آدمی کے ہاتھ میں بیچ دیا۔ آخر میں عرض ہے کہ آج میری جگہ موبائل اور انٹر نیٹ نے لے لی ہے اور میری وہ ساتھی کتابیں جس میں کبھی علم ودانش کی باتیں ہوا کرتی تھی ان کو کہیں پس پشت ڈال کر میری دوسری ساتھی کتابوں کو فحش اور بڑائی باتوں سے بھر دیا گیا ہے۔ آپ ہی کی نوجوان نسل جو قوم کا سرمایہ ہوتی ہے وہ ہم کتابوں سے ہدایت کے بدلے گمراہی کی گمراہی سمیٹ رہے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کو چاہئے کہ اچھی کتابوں کا انتخاب کریں۔ حیاتِ انسانی کے جمود کو توڑنے کیلئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مجھ سے دوستی کرلی جائے، کیونکہ میں ایک ایسی دوست ہوں جو آپ کے کردار اور عمل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کررہی ہے، آپ کو خیروشر کی تمیز سکھاتی ہوں ، آپ کے ذہن کے دریچوںکو کھولتی ہوں، تخلیقی صلاحیتوں اور ولولوں کو جلا بخشتی ہوں، مجھ سے دوستی آپ کی تقدیر بدل دے گی، غفلتوں اور ناامیدیوں کے بادل چھانٹ کر رکھ دیگی۔
موبائل:6291697668