پیشہ ور سربراہ بے لوث افسر

 
اس حقیقت سے بیشتر لوگ واقف ہوں گے کہ اپنی اس وادیٔ کشمیر کے ایک نامور صحافی میر گوہر احمد حال ہی میں ہم سے بچھڑ گئے ۔گوہر صاحب3؍اپریل 2021کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے ابدی سفر پر چل پڑے ہیں ۔بلا شبہ اس کائنات کے مالکِ حقیقی ربّ العالمین کے منشا ء کے مطابق اور اُسی کے اٹل قانون کے تحت ہر نفس (جاندار)  کو موت کا مزا چکھنا ہے ۔چنانچہ قانون ِ الٰہی کے مطابق ہی جس طرح ہر شئے کے وجود اور خاتمہ کا وقت طے ہے، اُسی طرح حضرتِ انسان کے اس دُنیا میں آنے اورپھر دنیا سے چلے جانے کا وقت بھی متعین ہے اور طے شدہ مقررہ وقت گذارنے کے بعد ہر کس و ناکس کو دنیا سے کوچ کرنا ہے ۔قانون ِ قدرت کا یہ سلسلہ ازل یعنی وجودِ کائنات سے چلا آرہا ہے اور تا قیامت آنے جانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ حق بات تویہ بھی ہے کہ جس طرح آج ہمارے ایک محسن، میر گوہراحمد اپنی زندگی کی مقرر ہ مدت پوری کرکے اس دنیا کو چھوڑ کر دوسری دنیا میں منتقل ہوگئے ،بالآخر اُسی طرح ہمیں بھی وقت ِ مقررہ پر اِس عارضی دنیا چھوڑ کر ابدی سفر پر جانا ہے۔البتہ قابل غور بات ہے کہ اس عارضی دنیاوی زندگی میں کچھ لوگ ایسے یاد گار تاثر اورخوبصورت نقوش چھوڑ جاتے ہیں ،جنہیں زمانہ ہمیشہ یاد کرتا ہے او راُن کے کارناموں کی مثالیں بھی پیش کرتا رہتا ہے۔جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو محض اپنی انّا، ذاتی اغراض اور نجی خواہشات و مرغوبات میں ہی یہ عارضی زندگی گزارتے ہیں جس کے نتیجہ میںاُنہیں مرنے کے فوراً بعد ہی لوگ بھول جاتے ہیںاور بعض لوگوں کا نام لینا تک گوارا نہیں کرتے ہیں۔
بہر حال بات یہاں جناب میر گوہر احمد کی ہورہی ہے جن کے ماتحتی میں راقم نے بھی ملازمت کے متعدد سال بتائے ہیں ۔یہ اُس دور کی بات ہے جب گوہر صاحب محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر پی آر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔میں اُن کا ایک ادنیٰ ساسپاہی تھا جو ابھی تعلقات عامہ کے کام کاج کو سیکھنے کی سعی ہی کررہا تھا ۔اُنہوں نے بہت کم عرصے میں میری لگن اور کاوشوں کو جانچ لیا تھا او ر پھر مجھے پرَکھ کر اپنا شاگرد بنانے کی ذمہ داری بھی لے لی تھی۔الحمداللہ میں بھی گوہر صاحب کی اُمیدوں پر پورا اُترنے  کے لئے اپنا کام بخوبی انجام دیتا رہا اور ہر دَم اپنی زبردست لگن اور شدید محنت سے روزمرہ کے محکمانہ فرائض انجام دینے کی کوششوں میں خوش اسلوبی کے ساتھ مگن رہتا تھا ۔ چنانچہ جب انہوں نے محسو س کیا کہ میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کے قابل بن گیا ہوں تو انہوں نے میری صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں آگے بڑھانے کے لئے مجھے پارٹ ٹائم(Part time )نوکری بھی دلائی، جو شام چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک انجام دینی تھی۔اگرچہ یہ assignmentمیری عمر اور تجربہ کے اعتبار سے کچھ بھاری ضرور تھی لیکن گوہر صاحب کی سرپرستی کی بدولت میرے لئے یہ ذمہ داری کچھ زیادہ مشکل نہیں رہی ،اگرچہ مجھ پرقومی اخبار’ ہندوستان ٹائمز‘میں بطور ایک اسسٹنٹ کے کام کرنے کی ذمہ داری عاید تھی تاہم بعد میں مجھ پہ یہ عقد بھی کھلا کہ صحافتی کام کے لئے All rounder ہونا انتہائی ضروری تھا۔رپورٹنگ ،ایڈیٹنگ ،ٹایپنگ اور دہلی کے دفتر کو مواد بذریعہ Telegraphآفس ارسال کرنااور یقینی بنانا بھی میری ذمہ داری میں شامل تھا ۔ اُس وقت ،اُس قومی اخبار کے Special correspandent جناب D.K. Issarتھے،جن کا دفتر جواہر نگر گورنمنٹ کوارٹرس میں قائم تھا ،بعد میں Issarصاحب کی جگہ ایم ایل مہیشوری نے خصوصی نمایندے کا عہدہ سنبھالا تھا ۔اللہ کا کرم ہے کہ میں نے دونوں نامور نامہ نگاروں کے ساتھ 1989تک خوش اسلوبی کے ساتھ کام کیا اور اس دوران گوہر صاحب کی سرپرستی حاصل رہی اور تواتر کے ساتھ جناب گوہر صاحب دفتر ی کام کے اوقات کے دوران بھی نیوز رپورٹنگ کے جدید طریقوں سے آشنا کرتے رہتے ، جن کی بدولت میری صلاحیتوںمیں نکھار آتا رہا اورمجھے ، وزیر اعلیٰ سے لے کر دیگر وزرائے مملکت و چیف سیکریٹری کی Coverage کرنے کے لائق بنایا۔گوہر صاحب کا یہ احسان بھلا کیسے بُلا سکتا ہوں جنہوں نے مجھے بغیر کسی لالچ کے متعلقہ کاموں کی انجام دہی کی تربیت انتہائی شوق اور سلیقے سے دی ،اسی لئے اللہ تعالیٰ سے دست بہ دعا ہوں کہ ربّ ِ کائنات میرے محسن مرحوم میر گوہر احمد صاحب کی مغفرت کرے اورکرو ٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے ۔
یہاں اس بات کاتذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب گوہر صاحب نے نہ صرف مجھے بلکہ محکمہ سے وابستہ کئی افسران اور ملازمین کو بھی اس مقدس پیشے کا علِم،اہمیت اورذمہ داری کادرس دیا بلکہ اس کا تقدس بھی سکھایا ۔بعد ازاںمدت ِ ملازمت  کے دوران گوہر صاحب مزید ترقیاں حاصل کرتے رہے اور اس طرح دیگر کئی اور محکموں کی سربراہی کا شرف پاتے رہے ۔ بے شمار ملازمین کو اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا اور اُن کے اوصاف حمیدہ کا کچھ نہ کچھ فیض حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔
آج گوہر صاحب کے انتقال پُر ملال کے بعد میں نے اپنے دوستوں و احباب کے ساتھ اُن کی تعزیت Shareکرتے ہوئے محسو س کیا ہے کہ گوہر صاحب نہ صرف ایک صالح انسان تھے بلکہ وہ ایک ایسی شریف النفس شخصیت تھے جنہوں نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کا بھَلا چاہا ،اُنکی رہنمائی کی اور اُن کے ہر مشکل میں اُن کاساتھ دیا ۔
گوہر صاحب کے انتقال پر دِلی افسوس اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ اطلاعات کے سابق ناظم کے بی جنڈیال صاحب نے اُنہیں اپنا رفیق ،عزیز دوست اور قریبی ساتھی قرار دیا۔انہوں نے اپنے ایک تعزیتی پیغام میں کہا کہ گوہر صاحب نے اُن کے ساتھ 1972میں بطور Information Officerمحکمہ اطلاعات Joinکیا۔گوہر صاحب غالباً 1950میں پیدا ہوئے تھے ۔جن دیگر محکموں کے اعلیٰ عہدوں پر گوہر صاحب فائز رہے ،اُن میں جموں و کشمیر ایگرو انڈسٹریز ،ٹریڈ کمیشن نئی دہلی،پی ڈبلیو ڈی ،ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن وغیرہ قابل ذکر ہیں اور بالآخر بطور ممبر ،جے اینڈ کے سپیشل ٹریبونل کے عہدے پر کام کرتے ہوئے عزت و عافیت کے ساتھ اپنی ملازمت ِ مدت پوری کرکے سبکدوش ہوئے۔مرحوم وادیٔ کشمیر کے معروف مولود خواں میر احمد اللہ صاحب کے فرزند ارجمند تھے۔مرحوم کے دو فرزند ،دو برادران اور ایک ہمشیرہ ہیں،جبکہ اُن کی اہلیہ گذشتہ سال ہی اللہ کو پیاری ہوچکی تھی،اللہ انہیں بھی مغفرت فرمائے۔
حقیقت یہ ہے کہ گوہر صاحب کے مجھ پر بہت سے احسان ہیں۔انہوں نے میرے ہاتھ میں ایک سود مند قلم تھمایا ،مجھے متعلقہ شعبہ سے متعلق امور کی تربیت دی اورنہایت شفقت سے قلم کاری کے قابل بنایا۔ قلم کاری کی اس تربیت میں جن دیگر آفیسر صاحبان نے مجھے بھرپورتعاون دیا ہے،اُن میںعزت مآب جنڈیال صاحب،مظفر احمد خان صاحب ،مرحوم محمد امین بٹ صاحب،علی محمد بٹ صاحب،او پی شرما صاحب،جے پی گنڈوترا صاحب اور کے کے کِلم صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔چنانچہ جب گوہر صاحب کے انتقال کی خبر ہمیں جنڈیال صاحب نے سُنائی تو میرے ہوش ہی اُڑگئے اور مجھے اُن کے تمام اوصاف ِ حمیدہ یاد آگئے۔حالانکہ میری اتنی جسارت نہیں کہ میں گوہر صاحب جیسے اعلیٰ پایہ انسان کی شخصیت کا مفصل بیان کرسکوں تاہم کچھ میٹھی یادوں کے تحت مندرجہ بالاکچھ سطور قلم بند کرنے کی کوشش کی۔مرحوم گوہر صاحب کے تئیں میرا خراج عقیدت بس یہی رہے گا کہ میں اُن کے نقش ِ قدم پر چل کر صحافت سے وابستہ نوجوانوں اور دیگر قلم کاروں کی پُر خلوص تربیت کروں تاکہ علم اور نور کی شمع ہمیشہ رونق افروز رہے،حق کی آواز بلند ہوتی رہے ،عوام الناس کے مسائل میڈیا کے ذریعے اُبھرتے رہیں اور لوگوں کواُن کا حق اور انصاف ملتا رہے۔
موت کو سمجھا ہے غافل اختتام زندگی 
ہے یہ شام زندگی ،صبح دوام ِ زندگی