پیر سلام الدین کاملی ۔بے لوث دینی شخصیت

 جموں وکشمیر عوامی مجلس عمل کے ایک بانی رکن رفتہ رفتہ سفر آخرت کو سدھار رہے ہیں۔ سرکردہ تنظیمی و تحریکی رہنما مرحوم الحاج غلام محمد میر المعروف ہوشیار صاحب کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ گزشتہ دنوں 5 مارچ2021 بروز جمعتہ المبارک تنظیم کے ایک اور بانی رکن اور میرواعظ خاندان کے قریبی محب اور انتہائی رفیق شفیق اور بہی خواہ بانی تنظیم ممیرواعظ مولوی محمد فاروق مرحوم کے سابق پی آر او پیر سلام الدین کاملی ایک طویل عمر گذار کر حیات مستعار پوری کرکے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 مرحوم پیرزادہ سلام الدین کاملی کشمیر کے ایک نامور ، باوقار اور ذی عزت خاندان ،کاملی خانوادہ کے ایک ممتازفرد تھے جن کے گھرانے سے تدریس قرآن کریم کے فیوض و برکات شہر سرینگر میں عام ہوئے اور خود مرحوم کاملی صاحب سے اپنے علاقے اور محلے کے عام مسلمان بچوں اور بچیوں کے علاوہ خصوصیت سے ممتاز دینی و سیاسی رہنما میرواعظ مولوی محمد فاروق مرحوم ،مفسر قرآن میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ صاحب کے فرزند ارجمند، مولوی محمد احمد کے علاوہ میراعظ خاندان کے اس پیڑھی کے افراد اور بچوں نے پیر سلام الدین کاملی صاحب سے قرآن کریم صفحاً صفحاً پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔
بلا شبہ ارشاد رسول اکرمؐ،جسے داماد رسول حضرت ذوالنورین سیدنا عثمان غنیؓ کی بخاری اور مسلم شریف میں روایت موجود ہے کہ’’ خیر کم من تعلم القرآن و علمہ‘‘ یعنی تم میں بہترین وہ ہے جو قرآن پڑھتا ہے اور پڑھاتا ہے ،کے مصداق مرحوم سلام الدین اس کی ایک عملی تصویر سادہ اور پْر وقار زندگی، چال ڈھال، رفتار اور گفتار میںسنجیدگی ، سر پر سفید امامہ ، آنکھوں میں عینک، خاموش طبیعت لیکن باغ و بہار شخصیت کے مالک ، قناعت پسندی اور بردباری اگر ان سب کو ملائیں تو پیر سلام الدین کاملی کی تصویر آنکھوں میں آجائے۔
1962 میں جب مشیت الٰہی اور عوامی اصرار کے بعد میرواعظ مولوی محمد فاروق انتہائی کمسنی میں کشمیر کے دینی اور سیاسی اْفق پر نمودار ہوئے اور آگے چل کر جموںوکشمیر عوامی مجلس عمل کی داغ بیل ڈالی گئی تو مرحوم سلام صاحب بحیثیت پی آر او میرواعظ کشمیر کے ساتھ جڑ گئے اور اس دن سے لیکر زندگی کے آخری ایام تک  میرواعظ مولوی محمد فاروق مرحوم کے مختلف النوع دینی ، ملی اور سیاسی کاموں میںہاتھ بٹاتے رہے۔
جناب سلام الدین مرحوم خوش خصال اور خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ خوشنویس بھی تھے  چنانچہ جب میرواعظ مولوی محمد فاروق مرحوم نے انجمن نصرۃالاسلام کے دور صدارت میں انجمن کے آرگن’’ مجلہ نصرت الاسلام‘‘ شائع کرنے کا فیصلہ کیاتو جناب سلام صاحب نصرۃالاسلام کے مضامین کی کتابت کا فریضہ انجام دیتے۔ علاوہ ازیں میرواعظ مولوی محمد فاروق مرحوم کی درجنوں اہم اور عوامی خطابات جو وقتاً فوقتاً کتابچہ اور پمفلٹ کی صورت میں عوامی استفادے کیلئے مرتب کیا جاتا تو انکی کتابت بھی باقاعدہ مرحوم سلام الدین صاحب ہی کیا کرتے۔
میرواعظ کشمیر کی سماجی ،ملی اور دینی ذمہ داریوں میں چونکہ نکاح کے فرائض بھی شامل رہے، اس لئے میرواعظ کشمیر جہاں جہاں نکاح خوانی کو تشریف لے جاتے تو جناب پیر سلام الدین ساتھ ہوتے اور معاہدہ نکاح کی تکمیل اور کتابت بھی ذمہ داری پوری کرتے اور یہ سلسلہ میرواعظ مولوی محمد فاروق مرحوم کے آخری ایام تک جاری رہا۔ پیر سلام الدین شریف النفس ، ہنس مکھ ، ملنسار اور اپنے خاندانی روایات کے حامل ایک سادہ لوح انسان تھے اور مرحوم نے عوامی مجلس عمل ، تعلیمی انجمن نصرۃ الاسلام، انجمن اوقاف جامع مسجد اور میرواعظ انسٹی چیوشن کے ساتھ جڑے تمام اداروں طویل اور بے لوث خدمت انجام دیئے جسے ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
21 مئی 1990 میں جب میرواعظ مولوی محمد فاروق کو ان کی اپنی رہائش گاہ میں بڑی بے دردی سے جاں بحق کردیا گیاتو ان کے جلوس جنازہ پر ہوئی فائرنگ میں مرحوم سلام الدین کاملی کے چھوٹے صاحبزادے رفاقت حسین کاملی کو بھی گولی لگ گئی اور بالآخر گولی سے متاثرہ انکی ایک ٹانگ کو الگ کرنا پڑا اور آج وہ خوبصورت اور معصوم نوجوان ایک مصنوعی ٹانگ کے ذریعے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہے۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرحوم سلام الدین کاملی صاحب کے خانوادے کا میرواظ خاندان کے ساتھ اتنا قریبی اور گہرا تعلق اور رشتہ ہے۔
میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق مسلسل نظر بندی کے سبب موصوف کی نماز جنازہ کی پیشوائی نہیں کرسکے تاہم میراعظ نے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کاملی خاندان خاص طور پر مرحوم کے فرزندان فیاض احمد کاملی ،اور رفاقت احمد کاملی اور دیگر سوگواروںسے دلی تعزیت و ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تباک و تعالیٰ سے سوگوار کنبے کیلئے صبر جمیل اور مرحوم کیلئے جنت نشینی کی دعا کی۔اس دوران مرحوم کی نماز جنازہ میں انجمن نصرۃ الاسلام اور جموں وکشمیر عوامی مجلس عمل سے وابستہ درجنوں عہدیداروں اور کارکنوں نے شرکت کی اور مرحوم کو پر نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا۔ پیر سلام الدین کاملی کی اجتماعی فاتحہ خوانی کی تقریب تنظیم کے زیر اہتمام COVID-19 کی ہدایات کے مطابق مرحوم کی رہائش گاہ لالبازار سرینگر میں انجام دی گئی۔
 مرحوم سلام الدین صاحب کاملی حقیقت میں اسم با مسمیٰ تھے۔ جمعتہ المبارک کے عظیم دن پر انہوں نے موت کو گلے لگایا اور جمعتہ المبارک کے شب روز میں جس خوش نصیب مسلمان کی وفات ہوتی ہے تو اْس سے عالم برزخ  اور قبر میں کوئی سوال و جواب اور پْرسش نہیں ہوتی۔ چنانچہ مرحوم کی وفات پر ایک اہل دل اور بزرگ عالم دین نے جو مرثیہ لکھ کر مرحوم کی قبر پر کتبہ کرایا ہے وہ بالکل مرحوم کے حسب حال ہے
بست ماہ رجب روز آدینہ آمد پیام
رفت سوئے دارالسلام کاملی سلام الدین بنام
بلغ ما انزل مرتب مقبول شد عمرے تمام
از طفیل ماہ معراج’’خوش طبیعت آمد‘‘ بکام
دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی لغزشوں سے درگذر کرکے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقاما ت سے نوازے۔ آمین