نماز میں دو سجدوں کی حکمت معلومات

مفتی منیب الرحمٰن

نماز کی ہر رکعت میں دو سجدوں کی کیا حکمت ہے ؟آیئے ،آج آپ کو اس حکمت کے متعلق واقف کراتے ہیں۔ نماز کی ہر رکعت میں دونوں سجدے فرض ہیں اور مکمل نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کا نام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز پڑھو ، جس طرح مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھو‘‘۔ (صحیح بخاری :631)
اَحکامِ شرعی کی پابندی اور کسی حیل وحُجّت کے بغیر اُنھیں تسلیم کرلینا ہی مومن کاشعار ہے ، خواہ اس کی حکمت و مصلحت اور سبب اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ شریعت کے احکام پر عمل کرنا اُن کی حکمتوں یا مصلحتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، بلکہ انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم سمجھ کرقبول کرنا اورعمل کرنا چاہیے۔ ہربات کی مصلحت جاننے یا بیان کرنے کا شریعت نے مُکلّف نہیں بنایا ہے، جب یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے، تو بلا چوں وچرا اس پر عمل کرے۔ علامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں: ’’اور سجدوں سے مراد ادو سجدے ہیں اور اس کی اصل کتاب و سنّت اور اجماع سے ثابت ہے۔ہر رکعت میں دو سجدے ہونا سنّت اور اجماع سے ثابت ہے اور یہ اَمرِ تَعبُّدی ہے۔ اکثر مشایخ کے نزدیک یہ ابتدا سے ایسے ہی ثابت ہے، لہٰذا اس کی عقلی حکمت کو جاننا شریعت کا مطلوب نہیں ہے ۔ دو سجدوں کی حکمت کے بارے میں ہمارے مشایخ کے چنداقوال ہیں:(1) دو سجدے شیطان کو رُسوا کرنے کے لیے کئےگئے کیونکہ اُس نے سجدہ نہیں کیاتھا ، اُسے ایک سجدے کا حکم دیا گیا تھا تو اُس نے نہ کیا، تو ہم اُسے رُسواکرنے کے لیے دو سجدے کرتے ہیں۔ (2) (فرشتوں نے) پہلا سجدہ اَمرِ الٰہی کی تعمیل میں کیا اور دوسرا سجدہ شیطان کو رُسواکرنے کے لیے کیا ، کیونکہ اُس نے ازراہِ تکبر سجدہ نہیں کیا تھا۔ (3) : پہلا سجدہ ایمان کے شکرانے کے طورپر ہے اور دوسرا بقائے ایمان کے لیے ۔ (4) : پہلا سجدہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیداکیا گیا اور دوسرا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اُنہیں اسی میں لوٹایا جائے گا۔ (5) قول یہ ہے: جب ذُرّیتِ آدم سے میثاقِ توحید لیاگیا تو اُنہیں سجدہ کرنے کا حکم ہوا تاکہ قول وفعل میں مطابقت ہوجائے ،تو سب مسلمانوں نے سجدہ کیااور کُفار سجدے میں نہ گئے ، تو جب مسلمانوں نے سجدے سے اپنے سر ُاٹھائے اوردیکھاکہ کُفّار نے سجدہ نہیں کیا ،تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق پر شکر اداکرتے ہوئے دوبارہ سجدہ کیا، جیسا کہ شیخ الاسلام نے ذکر کیاہے۔(البحرالرائق ، جلد 1،ص:310)
علامہ حسن بن عماربن علی الشرنبلالی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’سجدوں کی تکرار کی حکمت کے بارے میں ایک قول یہ ہے : تعبدی ہے،ایک قول یہ ہے: دوسجدے شیطان کو رُسوا کرنے کے لیے کئے گئے کیونکہ اُس نے سجدہ نہیں کیاتھا اور ایک قول یہ ہے: جب ذُرّیتِ آدم سے میثاقِ توحید لیاگیا تو انھیں سجدہ کرنے کا حکم ہوا، تاکہ قول و فعل میں مطابقت ہوجائے ،تو سب مسلمانوں نے سجدہ کیااور کُفار سجدے میں نہ گئے ، تو جب مسلمانوں نے سجدے سے اپنے سر اُٹھائے اوردیکھاکہ کُفّار نے سجدہ نہیں کیا ،تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق پر شکر اداکرتے ہوئے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں دوبارہ سجدہ کیا ۔ (مراقی الفلاح شرح نورالایضاح،ص:88) امام اہلسنّت امام احمد رضاقادری ؒ لکھتے ہیں: ’’مبسوط امام شیخ الاسلام پھر حلیۃ میں دونوں سجدے فرض ہونے کی حکمت بیان فرمائی:’’ یہ اس بناء پر ہے جو روایات میں ہے کہ اﷲتعالیٰ نے جب اولادِآدم علیہ الصلاۃ والسلام سے عہد لیا، جس کا ذکر ﷲنے اس آیت میں کیا ہے : ’’اور یاد کرو اُس وقت کو جب اے حبیبؐ!آپ کے ربّ نے بنی آدم سے ان کی پشتوں میں ان کی اولاد سے عہد لیا ‘‘، تو انہیں بطور تصدیق سجدے کا حکم دیا تو ﷲ کے حکم پر تمام مسلمان سجدہ ریز ہوگئے ،لیکن کافر کھڑے محروم رہ گئے، جب مسلمانوں نے سجدے سے سر اُٹھایا اور دیکھا کہ کفار نے سجدہ نہیں کیا تو وہ دوبارہ ﷲتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوگئے کہ ﷲتعالیٰ نے انھیں سجدۂ اوّل کی توفیق دی۔ لہٰذا نماز میں دو سجدے فرض ولازم ہوگئے اور رکوع ایک ہی رہا۔ (فتاویٰ رضویہ ،جلد6،ص:173)