موجودہ دور میں مکاتب کی اہمیت توجہ طلب

آصف اقبال

یہ ایک مُسلّم ایک حقیقت ہے کہ معاشرے کی بہتر تشکیل و تعمیر معیاری نظامِ تعلیم سے ممکن ہوتی ہے۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے والدین کو ایک اہم رول ادا کرنا پڑتا ہے جو اپنے بچّوں کی دینی و عصری تعلیم کے سلسلےمیں ہمیشہ کوشاں رہنےکے ساتھ ساتھ فکر مند بھی رہتے ہیں اور پھر کوشش بھی کرتے ہیں۔ والدین کی کوکھ سے بچّوں کو جو تربیت ہوتی ہے وہ وقتی نہیں ہوتی بلکہ اُس کے اثرات بچوں کے قلب و ذہن پر ہمیشہ منّقش رہتے ہیں۔ زمانہ تھا جب گھروں صباعی اور مسائی اوقات کے دوران والدین اپنے بچّوں دینی تعلیم یعنی قاعدہ،ناظرہ اور فارسی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، اُسی کے نتیجے میں ابھی تک نور الیضاء، گُلستاں بوستان، کریما نامہ حق اور دوسری کئ ساری کتابوں کا نام سُننے کو مل رہا ہے اور پھر کم سے کم بچّوں کو بنیادی تعلیمات سے واقفیت حاصل ہوتی تھی لیکن اب اجتماعی طور فرصت کی عظیم نعمت سے محروم ہیں فروعی چیزوں میں اکثر والدین، بچوں اور نوجوانوں کا وقت ضائع ہوتا جارہا ہے، جسکے نتیجے میں ہماری نوخیز نسل کی ایک بڑی تعداد دینی تربیت سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ زمانہ تھا جب بچّے کشمیری زبان میں سیرتی واقعات زبانی یاد کرکے گُنگناتے تھے۔وہ بھی دن تھے جب بچّے بنیادی چیزیں یعنی چھے کلمے، دعاء قنوت، التحیّات وغیرہ بچپن میں ہی حفظ کرلیا کرتے تھے لیکن اب بچوں کی زبانوں پر ویڈیوز کے ڈائیلاگ، حیاء سوز شعرو شاعری اور غیر شائستہ الفاظ حفظ ہورہے ہیں اور یہ سب جدیدیت اور ترقی کے نام پر منظم انداز میں تیزی سے نوخیز نسل کے ذہنوں پر اثر ڈال رہا ہے۔ اِن حالات میں وادی کشمیر میں کئ سارے مقامات پر منّظم انداز میں مکاتب کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور ایک بہتر انداز میں نوخیز نسل کی دینی تعلیم و تربیت کی جارہی ہے لیکن اکثر محلہ جات اور دیہات میں ابھی بھی ہزاروں بچّے مکاتب سے دور ہیں۔ قوم کے مستقبل کو سنّوارنے کے لئے ان مکتب کا ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ جو بستیاں ابھی بھی مکاتب سے محروم ہیں ،وہ ایک بڑی نعمت سے محروم ہیں کیونکہ مکاتب سے نوخیز نسل کے ایمان کو بنایا جاتا ہے اور اُنکی دینی تربیت کی جاتی ہے۔ مکاتب کے بغیر بستی کے بچّوں کا مستقبل مخدوش ہے ۔وقت کی اہم ضرورت ہے کہ بستیوں میں جدید طرز پر بچّوں کو دینی تعلیم پڑھانے کا نظم کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سینکڑوں بچّے دین کی تعلیم سے محروم رہ کر مغربی اور بے حیائی کے طوفان میں ڈوب جائینگے۔ اسلئے ہر مسجد کے ساتھ ایک مکاتب ضرور ہونا چاہئے تاکہ قرآن کی بنیادی تعلیمات سے بچّوں کو آراستہ کیا جائے ورنہ ہماری نوخیز نسل دین سے بے خبر رہے گی۔نبی رحمتؐ نے بدر کے مشرک اسیروں کی رہائی دس مُسلمانوں کی پڑھائی لکھائی پر موقف رکھی ،چنانچہ اسلاف اور مُسلمان کے درخشندہ ماضی کی بنیاد ان ہی مکاتب سے پڑی ہے جب ہر مسجد میں نماز کے اہتمام کے ساتھ ساتھ نوخیز نسل کی دینی تربیت کا بندو بست ہوا کرتا تھا۔