مرحوم غلام محمد گنائی

علاقہ ترال کے جنوبی جانب کوہساروں کے دامن میں ہاری پاری گام نام کا ایک گاؤں مشہور و معروف سیاحتی مقام شکارگاہ روڑ پر واقع ہے و سرینگر جموں قومی شاہراہ سے تقریباً دو کلو میٹر کی دوری پر پڑتا ہے۔ یہاں ایک خدا دوست، ہمدرد، خیر خواہ، مخلص، عابد، محب انسانیت ، خوش مزاج، ذہین، دین اسلام کے داعی اور اللہ کے سپاہی رہتے تھے جو اپنے وقت کے بڑے ہی معزز شخصیات میں شمار ہوا کرتے تھے اور جن کا اسم گرامی دور دراز علاقوں تک ان کے نمایاں کردار، اوصاف و خصوصیات کی وجہ سے پہنچ چکا تھا۔اللہ کے اس نیک بندے، انسان دوست شخص، ہم درد، سماج کے گم گسار، عوام کے خیر خواہ، ضرورت مندوں کے دل دار کا اسم گرامی مرحوم غلام محمد گنائی تھا ۔گنائی صاحب سرکاری ریکارڈ کے مطابق 29 جون سنہ 1946 کو اپنے آبائی علاقے ہاری پاری گام میں عبدالاحد گنائی کے گھر میں پیدا ہوئے – آپ اپنے والدین کے تیسرے بچے تھے۔آپ کے دو برادر اکبر اور ایک برادر اصغر کے علاوہ دو ہمشیرہ بھی تھیں۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں میں حاصل کی ۔ اس کے بعد میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول نورپورہ ترال سے امتیازی نمبرات کے ساتھ پاس کیا۔آخر کار آپ محکمہ امور صارفین و غذائی اجناس میں بطور کلرک تعینات ہوئے اور ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1979ء میں آپ کی شادی مشکِ زعفران سے معمور سر زمین لتہ پورہ میں ہوئی۔ اللہ پاک نے آپ کو دو لڑکے اور ایک لڑکی سے نوازا۔
آپ نے جوانی میں قدم رکھتے ہی اپنی بستی میں دینی رجحان پیدا کرنے کے لئے بحیثیت معلم اپنا کردار ادا کیا جسے آپ نے بخوبی انجام دیا ۔ آپ نے بستی میں نور حق کا چراغ جلا کر لوگوں کے دلوں کو منور کیا۔ آپ نے اپنے گھر میں ایک مکتب شروع کیاجہاں نہ صرف چھوٹے بچے بلکہ تمام عمر کے مرد و زن کو منہاج القرآن کی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا تھا۔یہاں بلا امتیاز عمر کے تمام لوگ استفادہ کرنے آتے تھے۔ آپ دین کی خاطر بہت فکر مند رہا کرتے تھے۔آپ نے ہماری بستی میں پھیلے اندھیرے کو اپنی صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نور القرآن کے چراغ سے مٹا دیا جس نے رفتہ رفتہ پوری بستی کو روشن و منور کیا۔
آپ کے اس مکتب میں منہاج العربیہ کا قاعدہ مکمل کرنے کے بعد پارہ عم شروع کی جاتی تھی۔ جہاں ساتھ ساتھ تختہ سیاہ پر املا بھی سکھایا جاتا تھا- جس سے عموماً چھوٹے بچوں میں اردو کے حروف پڑھنے، لکھنے اور پہنچاننے میں بڑی مدد ملتی تھی۔درس و تدریس کا وقت صبح نماز فجر کے بعد شروع ہوتا تھا جس کا سلسلہ صبح کے ساڑھے نو بجے تک جاری رہتا تھا۔ آپ کے گھر میں ایک کمرہ طلباء و طالبات سے مکمل طور پر کھچا کھچ بھرا پڑا رہتا ہوتا تھا۔ بستی میں آپ کو سبھی بڑے، چھوٹے مرد و زن پیار سے " لالا" کے نام سے پکارتے تھے۔
جاڑے کے موسم میں سردی سے بچنے کیلئے کانگڑیوں (Firepot) کا استعمال ہوتا تھا۔ لیکن آپ کو کبھی بھی اس پر غصہ آتا تھا نہ کبھی یہ ڈر رہا کرتا تھا کہ یہ بچے یہاں بچھائے گئے بستر کو جلا دیں گے۔ چونکہ آپ کی شریک حیات جو نہایت ہی شریف النفس خاتون ہیں، عزت و اکرام والے میکے سے تعلق رکھنے والی پاکیزہ، نیک سیرت، طبیعت میں نرم، گفتگو میں حلیم ' کا کردار بھی بہت ہی اہم رہا ہے۔ (اللہ پاک ان کو اپنے فرمانبردار بچوں کے ساتھ ہمیشہ خوش رکھیں۔) آپ چولہے پر استاد مکرم کے لئے نمکین چائے تیار کرکے ثقافتی سماوار میں گرم کرنے اور لذیذ بنانے کے لئے ڈال کر رکھ دیا کرتی تھیں اور تمام طلبا و طالبات کی کانگڑیوں کے لئے کوئلہ تیار کرتی رہتی تھیں۔ آپ کو بھی اپنے نامدار شوہر کی طرح کبھی غصہ نہیں آیا ہوگا۔
آپ اپنے ایام شباب میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے کافی متحرک و سرگرم عمل رہے ہیں۔ اپنی عمر کے آخری چندبرسوں میں دعوت و تبلیغ کے ساتھ منسلک رہے۔سہ روزہ کا معمول ہمیشہ رہا۔جب کبھی کسی خاص موقع پر بات کرنے کے لئے مدعو کیے جاتے تو آپ اکثر و بیشتر ' سورۃ العصر ' کی تفسیر فرماتے ہوئے بڑی پر تاثیر گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ آپ مقامی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ آپ عموماً نماز فجر کے دوران میں پہلی رکعت میں ' سورۃ الرحمٰن ' کی تلاوت رو رو کر کیا کرتے تھے جب کہ دوسری رکعت میں ' سورۃ الاعلی ' کی تلاوت آپ کا معمول رہا ہے۔ آپ کی امامت کے دوران میں مقتدیوں پر وجد طاری ہوا کرتا تھا اور نماز میں خشوع و خضوع خود بخود آجاتا تھا- کیونکہ آپ کی تلاوت قرآن سے سخت دل مسلمان بھی رویا کرتے تھے- ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی قاری اپنی میٹھی، سریلی فصیح و بلیغ اور درد بھری آواز میں تلاوت کر رہا ہے۔
آخری ایام میں محترم گنائی صاحب کی طبیعت  ناسازگار رہی ۔آپ کچھ عرصہ اپنے بیٹے کے ہمراہ ممبئی میں رہے اور وہاں ایک شفاخانہ میں زیر علاج رہے لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ مرض بڑھتا ہی رہا یہاں تک کہ 16 دسمبر 2015 ء کو صبح صادق کے وقت اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔محترم گنائی صاحب واقع میں ہمدرد، سخی، معلم، متعکف، داعی دین، شفیق باپ، رفیق دوست، غم خوار انسان تھے۔آپ کے لبوں پہ مسکراہٹ ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے تازہ دم یاد ہے۔چہرہ کیا خوب نورانی تھا، سفید داڑھی چمکتی ہوئی اپنی طرف کھینچ لیا کرتی تھی ۔  آپ کو حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت سے اللہ تعالٰی نے خوب نوازا تھا۔ آپ ظاہری شکل و صورت میں بالکل مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے ساتھ ملتے جلتے تھے۔ قد درمیانہ تھا، جسم نہ زیادہ کمزور نہ زیادہ فربہ بلکہ اعتدال کے ساتھ خوبصورت چال ڈھال کے مالک تھے۔
قرآن کریم سے گہرا اور غیر معمولی تعلق، شغف، شوق و ذوق تھا۔ آپ نے اپنے ہاتھوں سے قرآن پاک کا ایک نسخہ لکھنا شروع کیا جس کو تحریر کرنے میں آپ کو صبر آزمائی سے کام لینا پڑا ۔ آپ نے کئی سال کی محنت کی عرق ریزی کے بعد اسے مکمل کیا جو عوام الناس کی زیارت کے لئے آپ کی گھر کی لائبریری میں باضابطہ طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دانائے سبل ختم رسل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک ارشاد ' لا ضرر ولا ضرار' یعنی نہ نقصان پہنچاؤ نہ نقصان اٹھاؤ کے مطابق اپنی زندگی میں بطور اصول کو عملی طور پر نبھایا ہے۔ 
اس کے علاوہ آپ نے حضرت لقمان علیہ السلام کی طرز پر اپنے بچوں کے لئے چند انمول نصائح ضبط تحریر میں لائے ہیں جن میں آپسی تعلقات کو مضبوط رکھنے اور مسائل کو نرم گفتار سے حل کرنے ، بہن کے تقدس کو برقرار رکھنے ، بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے، چھوٹے بچوں سے شفقت کرنے، ماں کی عزت و اکرام کرنے اور ہر ضرورت صرف اللہ رب العالمین سے مانگنے پر خصوصاً زور دیا گیا ہے ۔
 آپ کے گھر میں کتابوں کاایک کتب خانہ موجود ہے جس سے بستی کے سبھی افراد استفادہ کرتے رہتے ہیں۔راقم الحروف کی زندگی میں دین کا شغف پیدا کرنے والے، میری بنجر زمین ِ حیات پر دین حق کا بیج بونے والے یہی شفیق و رفیق استاد مرحوم غلام محمد گنائی صاحب ہی تھے۔ ورنہ یہ بنجر زمین کبھی زرخیز نہیں ہو پاتی۔ اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
رابطہ ۔ہاری پاری گام، ترال کشمیر 
رابطہ۔ 9858109109