مرحوم غلام محمد میر المعروف ’ہوشیارؔ‘

دنیائے فانی میں اپنی حیات مستعار کے دن پورے کرکے بالآخر شہر خاص سرینگر کی ایک معروف سماجی، سیاسی شخصیت جنا ب غلام محمد میر المعروف’’ہوشیار‘‘ وطن سے دور سرزمین پاکستان کے بحریہ ٹائون اسلام آباد میں عالم آخرت کو سدھار گئے ۔ 
مرحوم میرصاحب مرنجاں مرنج ، خوش اخلاق، زندہ دل، اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ۔ شہر سرینگر کے بیشتر خاندانوں اور گھرانوں کی طر ح ان کا خاندان بھی کشمیر کے معرکتہ الآرا خاندان میرواعظ کے ساتھ صدیوں سے وابستہ چلا آرہا ہے ۔ اسی بنیاد پر مرحوم غلام محمد میر صاحب اور ان کے گھر والوں کو جو میرواعظین کشمیر کے ساتھ عقید ت و محبت رہی ہے وہ کسی بھی تبصرے اور وضاحت کا محتاج نہیں ۔
بنیادی طور پر مرحوم میرصاحب ایک تاجر پیشہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور معاشی مسائل اور ضروریات کی تکمیل کیلئے میر صاحب نے بھی تجارت جیسے مقدس پیشے کو اپنایا تاہم دل و دماغ میں عام کشمیریوں کی طرح  خصوصی جذبات اور احساسات پرورش پاتے رہے تا آنکہ1964 میں کشمیر کے سرکردہ جواں سال مذہبی اور سیاسی رہنما میرواعظ مولوی محمد فاروق نے جب عوامی جذبات اور احساسات کے پیش نظر عوامی مجلس عمل نامی سیاسی تنظیم کی داغ بیل ڈالی تو اُس میں پُر جوش اور نوجوان جو بڑی تیزی کے ساتھ اس تنظیم سے جُڑنے لگے اور اس کے تنظیمی اور تحریکی پروگراموںکو عوامی سطح تک گام و شہر تک پہنچانے کیلئے سرگرم عمل ہو گئے اُن میں مرحوم غلام محمد میر صاحب کا نام نمایاں ہے ۔
دراصل اسی تنظیم کے زیر سایہ اور مرحوم رہنما کی ولولہ انگیز قیادت میں دوسرے پارٹی رہنمائوں ،کارکنوں اور حامیوں کے ساتھ ساتھ مرحوم غلام محمد میر نے اپنی باقاعدہ سیاسی کیرئر کا آغاز کیا، یہاں تک کہ پارٹی کے اندر انہوں نے اپنے خلوص ، لگن ، dedication اور اخلاق و مروّت کی بنیاد پر ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔ایک عام رُکن ہونے کے ساتھ ساتھ وہ آگے بڑھتے رہے اور بالآخر مرحوم رہنما کے دور میںہی انہیں تنظیم کے صوبائی صدر کا بھی عہدہ سنبھالنا پڑاجسے انہوں نے انتہائی جانفشانی اور محنت کے ساتھ نبھانے کی کوشش کی اور مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود کبھی بھی مرحوم جھکے نہیں۔
 میرواعظ مولوی محمد فاروق کی رحلت کے بعد جب موجودہ میرواعظ کشمیر مولوی ڈاکٹر محمد عمر فاروق نے مشئیت الٰہی اور عوام کے شدید اصرار پر 1990میںتنظیمی ذمہ داریاں سنبھالی تو مرحوم غلام محمد میر صاحب بھی شانہ بشانہ میرواعظ کشمیر کے ساتھ دینی، سیاسی ، سماجی اور فلاحی پروگراموںکو آگے بڑھانے کیلئے ہمیشہ مستعد اور چاق و چوبند رہے۔گوکہ ایک عرصے سے اُنکی صحت بھی متاثر ہونے لگی اور بزرگی اور بڑھتی عمر کے ساتھ فطری کمزوریاں آنے لگیں لیکن اُن کا جذبۂ حریت تنظیم اور تحریک کے ساتھ اٹوٹ وابستگی میرواعظ خاندان کے ساتھ بے پناہ عقیدت و محبت وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی رہی ۔
مرحوم غلام محمد میر صاحب نے جن حالات میں اور جس طرح موت کو گلے لگایا وہ بھی ہر لحاظ سے قابل رشک ہے۔ جمعتہ المبارک کی مقدس رات اور وطن سے دور پردیس میں ایک مہلک مرض’’کینسر‘‘ کی نشاندہی کے بعد دنیا سے رخت سفر باندھنا  حضرت رسول رحمت ﷺ کے مقدس ارشادات کی روشنی میں شہادت کا مقام حاصل کیاکیونکہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جس کلمہ گو کی موت جمعتہ المبارک یا شب جمعہ کو ہو اُس سے قبر میں کوئی سوال و جواب اور پُر سش نہیں ہوگی۔ اسی طرح جس خوش نصیب کی وفات وطن سے دور ہو اور جہاں اُس کی موت واقع ہوئی ہو اتنی مسافت تک اس کیلئے جنت میں جگہ محفوظ کردی جاتی ہے اور پھر مہلک اور موذی مرض میں انتقال ہو تو اُسے شہادت حکمی کا درجہ حاصل ہوتا ہے گویا کہ یہ تینوں بشارتیں اور اعزاز مرحوم میر صاحب کو حاصل ہو گئے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم واقعی ایک نیک سیرت ، نیک فطرت اور صادق القول مسلمان تھے جن کی مقبولیت اور محبوبیت کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں ہی محسوس اور مشاہدہ کرادیا۔
مرحوم میرصاحب کی وفات پر جموںوکشمیر عوامی مجلس عمل اور اسکے سربراہ میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے اپنے تعزیتی بیان میں مرحوم کے تئیں جس طرح سے خراج عقیدت پیش کیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُسے یہاں من و عن نقل کیا جائے۔’’جموںوکشمیر عوامی مجلس عمل نے پارٹی کے ایک سینئر رہنما، بانی رکن اور سابق صوبائی صدر جناب غلام محمد میر المعروف ’’ہوشیار‘‘ سکونت چھانہ محلہ چھتہ بل سرینگر کے انتقال پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ مرحوم الحاج غلام محمد میر کا خاندان میرواعظ خانوادے کے ساتھ روز اول سے وابستگی کے ساتھ ساتھ مرحوم غلام محمد میر عین عالم شباب میں تنظیم کے ساتھ اْس وقت سے جْڑ گئے جب بانی تنظیم حضرت شہید ملت نے کشمیری عوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کیلئے عوامی مجلس عمل کی داغ بیل ڈالی۔ چنانچہ مرحوم نے ایک انتہائی سرگرم اور فعال رْکن کی حیثیت سے تنظیمی ذمہ داریوں کو بھر پور انداز سے ادا کرنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور تنظیمی پروگراموںکو آگے بڑھانے کے حوالے سے صوبائی صدر بھی بنائے گئے۔اس دوران مرحوم غلام محمد میر نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور متعدد بار تنظیم اور تحریک کے پروگرام کے حوالے سے انہیں جیل میں ڈالا گیا اس کے باوجود تنظیم کے تئیں انکی وفاداری، استقامت اور استقلال کوکمزورنہیں کیاجاسکا۔مرحوم غلام محمد میر 1964 میں سانحہ موئے مقدس آنحضرت ﷺ کے موقعہ پر ایک سیاسی اور سماجی ورکر کی حیثیت سے ’’ہوشیار‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے ، کیونکہ اسی نام کے نعرے کی وجہ سے موئے مقدس آنحضرت ﷺ کی تحریک اور پروگرام کو عوامی سطح تک پہنچایا جاتا تھا۔ چنانچہ موئے مقدس آنحضرت ﷺ کی بازیابی کی تحریک کو کشمیری عوام کیاٹوٹ اتحاد اور یکجہتی نے حضرت شہید ملت ﷺکی ولولہ انگیز قیادت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔جناب غلام محمد میر کی بے لوث سیاسی اور سماجی خدمات کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے تنظیم نے اْن کی وفات کو ایک بڑا سیاسی خلا اور ایک مخلص کارکن کا بچھڑنا قرار دیا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔‘‘
دریں اثنا مرحوم کی وفات پر گزشتہ دنوںنماز جمعہ کے موقعہ پر مرکزی جامع مسجد سرینگر میں تنظیم کے زیر اہتمام دعائیہ مجلس میں مرحوم کے حق میں فاتحہ پڑھی گئی اور ایصال ثواب کیا گیا۔ہماری دعا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے مرحوم کی نیکیوں کو قبول فرما کر جنت نشین کرے۔ آمین