! مثبت سوچ اور سمجھ پیدا کریں خیال من

ہارون ابن رشید، ہندوارہ

اس دنیا میں کوئی بھی کامل نہیں ہے۔ انسان کو اپنی زندگی ،خوب سے خوب تر انداز میں گزارنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ چاہے وہ اپنے خالق کی طرف سے کتنے ہی امتحانات سے گذر رہا ہو،اس لئے لازم ہے کہ انسان کو اپنی جدو جہد اُس وقت تک جاری رکھنا ہے جب تک کہ وہ ہرامتحان کامیابی حاصل نہ کر لیں۔ دورِجدید میں انسان کام کاج میں اتنے مصروف ہیں کہ وہ خود پر توجہ دینا ہی بھول گئےہیں۔ ٹھیک ہے! ہم جو بتانا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ اپنے آپ کی اصلاح ہر انسان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ پہلے خود پر کام کرنے سے انسان کی شخصیت پر بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ انسان کے لئے جسم، روح اور دماغ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔مثلاً جسے ہم جسم کہتے ہیں، اُس کا مطلب جاننا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے، جیسے کہ اسے کس قسم کے کھانے کی ضرورت ہے، کون سا کھانا اس پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور کون سی بہتری لا سکتا ہے۔ جسم کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اِن کھانوں کی اقسام کو حاصل کرکے ہضم کر سکے جو ہم کھاتے ہیں، جیسے کچھ کھانے ہمارے جسم کے لئے مناسب نہیں ہوتےاور اُ ن کے کھانے سے منفی اثرات پڑتے ہیں۔اس کے بعد مشق ( گرومنگ ) آتی ہے، یہ صرف اس بات پر منحصر نہیں کہ ایک شخص کو کتنا صاف ستھرا اور اچھا لباس پہننا چاہیے۔ لوگوں کو بہر صورت معلوم ہونا چاہیے کہ کیا پہننا ہے اور کب پہننا ہے۔ وادی کے لوگ جب پکنک پر جاتے ہیں تو پارٹی لباس پہنتے ہیں جو کہ مناسب نہیں ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جنازوں میں بعض لوگ شاندار اور چمکتے دھمکتے کپڑے پہنتے ہیں جو کہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ یہاں ہمیں گہرائی سے سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب کوئی اپنا عزیز کھو دے تو وہ چمکدار کپڑے نہیں پہنتا ہے۔ ہم کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتے لیکن درحقیقت ہر شخص کو یہ چیزیں سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے،یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں سوچ سمجھ کےکوئی سبق لینا ہوگا۔اب ذہن کی طرف واپس آ تے ہیں۔جی ہاں! ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کب کرنا چاہیے۔ اپنی اس وادی میں کتنے لوگ ہوں گے،جنہوں نے کام کاج کے لئے ایک مناسب ٹائم ٹیبل رکھا ہےاور جس پر وہ روزانہ عمل کرتے ہیں؟ ہم سوچتے ہیں کہ اگر صرف چند لوگ ہی نظم و ضبط کی زندگی گزارتے ہیں تو باقی لوگوں کو اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔
مثال کے طور پرہمارے معاشرے کے بیشتر نوجوان صبح 4 اور 6 بجے یعنی فجر کے اوقات میں جاگتے ہیں اور بہت سے لوگ صبح 10 سے 11 بجے تک سوتے رہتےہیں۔ جب کہ بعض نوجوان ایسےبھی ہیں جو دوپہر کے کے بعد جاگتے ہیں،ان نوجوانوں میں زیادہ تر تعدا د اُن کی ہے،جورات بھر گیمز کھیلتے اور ویڈیوز دیکھتے رہتے ہیں۔ والدین بھی اُن کی شرارتوں اور بُری عادتوں سے ناراض ہوتی ہیں۔ اب جو صبح سویرے اُٹھنے والا ہے، وہ اپنے کاموں کو مؤثر طریقے سے کرتا ہےاور دیر سے جاگنے والے سے زیادہ سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ جلد از جلد آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ دوسروں سے زیادہ اپنے آپ میں کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیںگویا وہ باقی دنیا سے بہتر بننا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں اُن کے لئے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے زیادہ امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
وہ لوگ جن کے پاس روزمرہ زندگی گزارنے کے بارے میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہوتا، وہ زیادہ تر چیزوں میں توازن برقرا ر رکھنے سے قاصر ہوتے ہیں جبکہ دوسرے سماجی ہوتے ہیں کیونکہ وہ ٹائم ٹیبل کے پیچھے کا راز جانتے ہیں۔ آج کے دور میں شخصیت کی نشوونما بہت ضروری ہے۔ آپ کا دوسروں سے بات کرنے ، اُن کے ساتھ برتاؤ کرنے کا طریقہ بھی آپ کی شخصیت پر منحصر ہے۔ ہم ہمیشہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بیرونِ دنیا میں کیا ہو رہا ہے لیکن ہم اس بارے میں کبھی پریشان نہیں ہوتے ہیں کہ ہم اپنی نمائندگی کیسے کرتے ہیں۔ اگر ہماری شخصیت مضبوط ہے تو لوگ یقینی طور پر اس کی طرف زیادہ رجوع کریں گے اور اس کی تعریف کریں گے۔ حقیقت میں شخصیت یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں کتنا مثبت سوچتے ہیں یا ہم انہیں کس قسم کی مدد فراہم کرتے ہیں۔ چاہے انسان کتنا ہی پڑھا لکھا ہو، شخصیت انسان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نوجوانوں کو اپنے آپ کوخود چیک کرنا چاہیے اور یہ بات سامنے لانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بذاتِ خود ان میں کیا کمی ہے یا ان کے پاس کون سی اچھی چیزیں ہیں۔ موجودہ دور میں مثبت ذہنیت کم ہی نظر آتی ہے۔ ضرورت ہے کہ صبر و برداشت کے تحت زندگی بھر خوش و خرم رہنے کی کوشش کی جائے۔
[email protected]