قربانی اور جذبات انسانی

 تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے۔
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے۔
(علامہ اقبالؒ)
انسانی تواریخ میں قربانی کا وجود بہت قدیم بھی اور حقیقی بھی۔قربانی لفظ قرب سے مشتق ہے اور اسکا تشریعی معنی اللہ کی قربت حاصل کرنا ہے۔قربانی، باقاعدہ قصہ ہابیل و قابیل سے مستند شواہد کے ساتھ ثابت ہے۔ہابیل و قابیل حضرت آدم علیہ الصلوات والسلام کے فرزندان تھے۔اسوقت کی شریعت کے مطابق جس لڑکی کا نکاح ہابیل کے ساتھ جائز تھا اس لڑکی پے قابیل کی نگاہیں جم گئیں۔نگاہیں جمنے کا سبب بغیر وضاحت کے بآسانی قابل فہم ہے۔یعنی انسانی فطرت ظاہر پے زود تر مائل ہوجاتی ہے اور نفس امارہ کی خوراک دنیا کا ظاہری پہلو ہے اور اسی مادی حرص و ہوس نے ابلیس، جو طاوس ملائکہ تھا ،کی عقل پے پردہ ڈال کر اسے ابد الآباد کے لئے راندہ درگاہ کردیا۔موضوع قربانی کا ہے مگر ضمناً اس جانب اشارہ کرنا لازمی ہے کہ اس سرائے فانی میں مرد کی تسکین خاطر عورت کے وجود میں پوشیدہ ہے اور عورت کے خد وخال مرد کے کے لئے جاذب نظر اور پر کشس ہونے کے ساتھ ساتھ بنت حوا کی عظمت اور وقار کے ضامن بھی ہیں، اگر اس وجود کو پردے کے حصار میں محفوظ رکھا جائے،ورنہ داستان قابیل کے قصے کے سائے دراز سے دراز تر ہوتے رہینگے جیسے کہ آج کے اس مادہ پرست اور مکدر دور میں اطراف عالم میں شب وروز مشاہدے میں آرہا ہے۔ اغیار کے مذہبی اعتقادات اور حقوق نسواں کے تعلق سے مروج راہ و رسم پر بحث سے احتراز کرتے ہوئے، مسلم معاشرے کی زبوں حالی اور شکست و ریخت کے اسباب میں سب سے بڑا سبب وجود زن کا، حدود سے انحراف اور ستر کے حصار سے فرار ایک ایسا مرض مہلک جسکے وبائی شعلے اس امت کی شہزادیوں کے دامن عفت وعصمت کوجھلس رہے ہیں۔قصہ ہابیل و قابیل سے واضح ہوتا ہے کہ ایک طرف حسن زن اور دوسری جانب نفس امارہ، پہلے انسانی قتل کے محرک بنے۔قابیل کا نفس امارہ ہابیل کے قتل نا حق پے راضی ہوا مگر قابیل اپنی نفسانی خواہش کی قربانی پے راضی نہ ہوا۔آئے اب اس عظیم قربانی کا کچھ اجمالی تذکرہ کرتے ہیں جسے سنت ابراہیمی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اپنی نفسانی خواہشات کے بعد اگر کسی ذی روح کو کوئی چیز محبوب ہو سکتی ہے تو وہ اولاد ہے۔انسان تو انسان ، بہائم و طیور اور حشرات الارض بھی اپنی اولاد کو اپنی جان سے عزیز تر رکھتے ہیں۔لیکن حضرت ابراہیم اس عزیز ترین شئے کو بھی حکم خداوندی کی تکمیل میں اللہ کی نذر کرنے میں مخلص بھی اور مستعد بھی نظر آتے ہیں۔بے شک یہ عظیم ابتلاء￿  تھی مگر اس آزمائش کا وقت کب آیا ؟ یہ وقت تب آیا جب حضرت ابراہیم خلیل الرحمان ' حنیف' کے لقب سے ملقب ہو چکے تھے یعنی ایک جانب شرک سے بے زار،تن تنہا شرک میں لت پت لشکر جرار سے نبرد آزما اور دوسری جانب نفس امارہ پے مکمل  شکنجہ کسے ہوئے۔اب حضرت ابراہیم علیہ الصلوات و السلام کے دل میں ہر حرام کی نفرت اور ہر حلال کی محبت باقی بچی تھی مگر ہر حلال کی محبت پے اللہ کی محبت حاوی تھی اور اب وقت آگیا تھا کہ حضرت ابراہیم کی اس پوشیدہ محبت کو عرش و فرش کی وسعتوں میں ظاہر کیا جائے۔حضرت ابراہیم اللہ کے حکم کی تعمیل میں حضرت اسمعیل علیہ الصلوات و السلام کی مبارک گردن پے چھری پھیرنے والے ہی تھے کہ صدا آئی :-" اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا"اس وقت سے سنت ابراہیمی کا یہ سلسلہ جاری ہوا اور رہتی دنیا تک یہ سنت زندہ رہیگی۔متذکرہ بالا دو واقعات انسانی فطرت کے دو مختلف پہلووں کو واضح کرتے ہیں۔دونوں واقعات میں انسانی جذبات کارفرما ہیں۔فرق اتنا ہے کہ قابیل نے اللہ کے احکام کی روگردانی  اور اپنے نفس کی پیروی کی اور اللہ کی غیر محدود عنایات سے محروم، ناکامی اور ذلت سے دوچار ہوا اور ابراہیم خلیل الرحمان نے اپنے جذبات اور ترجیحات کو اللہ کی خاطر قربان کر کے اپنی محبوب ترین چیز یعنی اپنے لخت جگر کو پیش کیا۔ واقعہ ابراہیم اور قصہ قابیل، اسلامی تاریخ کے دو عظیم واقعات ہیں جن سے امت محمدی کو درس و عبرت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔قربانی بہائم کی آسان ہے مگر جذبات اور مرغوبات کو قربان کرنا قربانی کی اصل روح ہے۔خاک و باد اور نار و آب کے اس آمیزے میں حرص بھی، ہوس بھی، طمع بھی اور حب جاہ بھی خوب شیر و شکر ہے۔اسی راز سربستہ کی گرہ کشائی کی غرض سے اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم کے ایک استفسار کے جواب میں کچھ پرندوں کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔اس واقعہ کو مولانا جلا الدین رومی نے اپنی مثنوی میں تفصیلاً یوں ذکر کیا ہے:-"جب حضرت ابراہیم نے اللہ تعالی سے سوال کیا کہ اے اللہ مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔اللہ تعالی نے فرمایایا" اے ابراہیم کیا تجھے یقین نہیں ؟" حضرت ابراہیم نے عرض کی" اے اللہ مجھے علم الیقین ہے لیکن عین الیقین چاہتا ہوں"اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو چار پرندے ذبح کر کے بو ٹی بوٹی الگ کر کے دور دور پہاڑوں پے بکھیر دینے کا حکم دیا اور پھر ان پرندوں کو بلانے کا حکم دیا۔جب ابراہیم نے ان پرندوں کو ذبح کرکے بوٹی بوٹی دور پہاڑوں پے بکھیرنے کے بعد اپنی طرف بلایا تو وہ صحیح سالم آن واحد میں حاضر ہوئے۔اسطرح سے حضرت ابراہیم کا علم الیقین، عین الیقین میں بدل گیا۔ مولانا روم اپنی مثنوی میں رقمطراز ہیں کہ ان چار پرندوں میں کوّا، مور، بطخ اور مرغا شامل تھا۔ان چار پرندوں کی خصائل رذیلہ بہت معروف ہیں۔کّوا جب بھی کسی زندہ یا مردہ شکار کو دبوچتا ہے تو سب سے پہلے اسکی آنکھ پھوڑتا ہے وہ اس لئے کہ کوّے کا پیٹ تو بھرتا ہے مگر آنکھ نہیں بھرتی۔مور جب فضا میں بلند ہوتا ہے تو اپنے پروں کے گلستان کا نظارہ کرتے کرتے دنیا کے دیگر تمام طیور کی پروازوں  کو پست دیکھنا چاہتا ہے۔یہ حب جاہ ہے یعنی دوسروں پے حکمرانی کا داعیہ۔بطخ تمام پرندوں میں بہت حریص ہے اور جب بھی دیکھو تو پانی میں چونچ دبائے پیٹ بھر رہا ہوتا ہے کہ بھرتا نہیں۔یہاں کھایا وہیں دسترخواں پے ہی برسایا اور مرغے کی ہوس ضرب المثل ہے۔پل پل گردن تاننا اور مرغی کے طواف میں پر پھڑ پھڑانا۔یہ ساز اسکا رکتا نہیں مگر تسلی نام کی کوئی چیز نہیں۔"قارئین محترم در اصل ہر انسان کے اندر فطری طور ان چار پرندوں کی خصائل بخوبی موجود ہیں اور انسان کے باطن میں ان خصائل کی کشمکش جاری رہتی ہے اور انہی خصائل پے قابو پانا اصل جہاد اور عظیم قربانی ہے۔انسان جب بھی اللہ کے خوف سے بے نیاز ہوجاتا ہے تو یہ جذبات فی الفور از سر نو گردش میں آجا تے ہیں اور انسان کو انسانیت کے منصب سے گرا کر بہیمیت کے دائرے میں ڈال دیتے ہیں۔ آج اگر ہم گرد نواح اور اپنے گریباں میں جھانکیں تو ثابت ہوتا ہے کہ رسم قربانی زندہ ہے مگر روح قربانی نحیف ولاغر۔آئے ہم سنت ابراہیمی کی اصل روح کو اپنی زندگی کا ساز بنائیں۔ حق و باطل کا معیار قرآن اور نبی صل اللہ علیہ و سلم کے فرمان کو بنا کر حصار باطل کی دیواروں میں صدمے ڈال دیں اور اپنی ہر خواہش کو حکم خداوندی کی دہلیز پے نثار کریں۔اللہ ہر امتی کو قربانی کی روح کو سمجھنے کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین۔
طارق ابرہیم سوہل نیل ، بانہال ضلع رام بن
رابطہ نمبر  ۔  8493990216