عید کی آمد اور ہمارا طرز عمل

اپنی اس وادیٔ کشمیر کی شائد یہ شروع سے ہی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں جب بھی عیدین آتی ہیں تو ان مقدس تہواروں کی آمد سے قبل ہی یہاں ہر چیز خصوصاً روزِ مرہ استعمال کی جانے والی کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتیں دوگنی اور تگنی ہوجاتی ہیںاور صارف سےہر چیز کے منہ مانگے دام وصول کئے جاتے ہیں۔چنانچہ اشیائے ضروریہ فروخت کرنے والے ناجائز منافع خوری کی یہ روایت رہی ہے کہ وقت وقت پر نِت نئے بہانے اور ہتھکنڈے آزماتے رہتے ہیں۔کبھی زبردست گرمی،کبھی شدت کی سردی ،کبھی بارش اور برفباری کے نتیجہ میں جموں سرینگر شاہراہ کچھ دن مسدود رہنے کی آڑ میںیہ بہانے بازپہلے اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں، پھر ان چیزوں کے دام بڑھاکر اپنے روایتی حربوںکے تحت ناجائز منافع کا بازار گرم کرتے ہیںاور لوگوں سے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔یہ سلسلہ اپنی اس وادی میں ایک طویل عرصے سے چلا آرہا ہے اور اسے فخر کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا ہےاور پھر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔عید الفطر کی آمد ہے اور روزوں کے شکرانے کے اس مقدس دینی تہوار پر بھی ہمارے یہاں کے کوٹھیداروں ،قصابوں ،مرغ فروشوں ،بیکری فروخت کرنے والوں،سبزیاں اور دودھ بیچنے والوں کے ساتھ ساتھ دیگر دوسری اشیاء فروخت کرنے والوں نے اپنےروایتی طرزِعمل پر کام کرنا شروع کردیا ہےاور ہر معاملے میں اپنی ملت اور اپنے بھائیوں کو لوٹنے کی قسم کھائی ہے۔افسوس صد افسوس!ایک طرف ہم ہر جگہ اور ہر مجلس میں بڑھ چڑھ کر اپنے دین ِ مبین کی خوبیاں بیان کرتے رہتے ہیں تو دوسری طرف خود ہی اپنے اس عظیم مذہب کے احکامات ،اصول اور قواعد و ضوابط کی پاسداری سے انحراف کرتے رہتے ہیں۔مغربی ممالک یا بھارت کے تقریباً سبھی شہروں میں جب بھی غیر مسلموں کا کوئی مذہبی تہوار آتا ہے تو غیر مسلم اپنے مذہبی تہواروں کے آنے سے پندرہ بیس دن قبل ہی تمام کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ تمام دوسری ضروری اشیاء کی قیمتیں کم کرتے رہتے ہیں۔عام چیزوں کی سیل لگائی جاتی ہے اور ضرورت کی تمام چیزیں عام دنوں کے مقابلے میں بہت سستی کردی جاتی ہیں تاکہ ہر طبقے سے وابستہ ہر فرد اپنے اس تہوار کو بھرپور طریقے مناسکیںاور کوئی بھی فرد اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے سے محروم نہ ہوجائے۔بعض اسلامی ملکوں میں بھی یہی روایت چلی آرہی ہے کہ عیدین کے موقعوںپر ہر فرد کو ضروریات ِ زندگی کی چیزوں کی حصولیابی میں آسانی، راحت اور سہولت فراہم ہوسکےاور ہر کوئی بھرپور طریقے پر خوشیاں مناسکیں ۔لیکن اپنی اس وادیٔ کشمیر کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ایمانداری ،ہمدردی ،حق پرستی اور انصاف کا شعور اس قدر مُردہ ہوچکا ہے کہ اب اسے زمینی اور آسمانی آفات بھی بےدار نہیں کرسکتے ۔ہمارے تاجر پیشہ اصحاب اور دکاندار بھی اپنے مذہبی اور دینی مقام و مرتبے سے بالکل بے نیاز ہوکر صرف عارضی دنیاوی فوائد ہی کو سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ِ عمل رہتے ہیں،آخرت کی فکر ہم میں سے کسی میں بھی نہیں پائی جاتی ۔عید الفطر کی آمد کو ایک دو دن رہ گئےہیں،لیکن ابھی تک شہر و دیہات میں روزمرہ استعمال کی جانے والی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کوئی اعتدال پیدا نہیں ہورہا ہے،قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے ولا محکمہ اور ناجائز منافع خوری کے خلاف کاروائی کرنے ولا عملہ بھی محض روایتی حربوں کے تحت کام چلا کر اپنے لئے ’’مال‘‘ ہی بنانے میں مشغول ہیں۔اطلاعات کے مطابق اس ہوش ربا مہنگائی اور ناجائز منفعت پرستی نے متوسط اور غریب لوگوں کے لئے شدید مشکلات پیدا کردیئے ہیں ،جس کے نتیجے میں زیادہ تر لوگ نہایت افسردہ اور مایوس ہوچکے ہیں،ہر چیز کی قیمتیں اُن کی بساط سے باہر کردی گئی ہیںاور اِن چیزوں کا حصول اُن کے لئے بہت دشوار بن چکا ہے ۔جبکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پہلے ہی محدود آمدنی والے گھرانوں کے بجٹ کو تہہ و بالاکرکے رکھ دیا ہے۔