عرفان علی خان :ایک مایہ ناز فن کار

 غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری !
قد دراز ،رنگ کالا، اعضا موٹے، جلد سیاہ فام ،جسم گوشت سے بھر اہوا،آنکھیں موٹی موٹی اور ان کے پیوٹے ابھرے ہوئے، نظر تیز و پر اعتماد، اندا ز میں سنجیدگی اور خوداعتمادی، بال لمبے اور ٹیڑے، داڑھی منڈی ہوئی ،آواز میں نرمی اور ٹھہرائو، چہرے پر بشاشت اور ذہانت ، گفتگو حشو و زوائد سے مبرا،بالی وڈ کے سپر اسٹار اور فن اداکاری میں کمال کا درجہ رکھنے والے عرفان خان کی بے وقت موت کی خبر سے ادبی دنیا کے شائفین کی آنکھیں پرنم ہوئیں ۔کسی کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ وہ اتنی جلدی اس دارالفانی سے کوچ کرکے داغ مفارقت دیںگے۔انہوں نے مختصر سے وقت میں اپنے محنت کے بل پروہ کارنامے انجام دیے کہ ان کا شمار کنہیا لال، پریم ناتھ ملہوترا،راج کپور،مینا کماری اور شہنشاہ جذبات دلیپ کمار جیسے مایہ ناز فن کاروں میں ہونے لگا۔ ان کی زندگی میںجہاں انسان دوستی اوردل نوازی کے عناصر شامل تھے وہیں ان کی طینت میں غرور ،نخوت ،تکبر اور گھمنڈ نام کی کوئی چیز نہیں تھیں۔
 عرفان علی خان کی ولادت ۷/جنوری/۱۹۶۷ ء کو  راجستھان کے ضلع ٹونک میں ایک روشن خیال خاندان میں ہوئی۔ان کے والدہ کا نام سعیدہ بیگم خان اور باپ کا نام یاسین علی خان تھا ۔دونوں مہذب اور پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ان کی پرورش میں گرچہ دونوں شامل ہیں مگربالخصوص ان کی شخصیت کو نکھارنے اور پروان چڑھانے میں ان کی ماںکا بڑا ہاتھ ہے۔عرفان خان کی  فطری رغبت کرکٹ کی طرف تھی مگرکم آمدنی کی وجہ سے ان کے لیے دوردرازعلاقوں کا سفر کرنا ناممکن تھالہٰذا وہ اس میدان میں کوئی بڑاکارنامہ نہ دکھا سکے اور چار و ناچار ہوکر ناٹک کی طرف متوجہ ہوئے۔بچپن ہی سے فلمیں دیکھنا اور اسپکرٹ پڑھناان کا محبوب مشغلہ تھااور پھرآہستہ آہستہ یہ مشغلہ ان کی زندگی کا نصب العین بن گیا۔جے پور میں یو۔جی۔کا امتحان پاس کرنے کے بعد دہلی میں قومی اسکول آف ڈراما میں فن اداکاری سیکھنے کے لیے داخلہ لیااور تین سال کی محنت شاقہ کے بعد ڈیپلوما ان ڈرامیٹک آرٹس کی سند حاصل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے مشاقی سے اس فن کی باریکیوں کو سیکھنے کی انتھک کوشش کی ۔ فلموں یا ڈراموں میں تھوڑا سا بھی رول کرنے کا موقعہ مل جاتا تو جان کی بازی لگا تے تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آگے چل کر انہوں نے شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کے یہاں ہزار طرح کے مسائل و معاملات رہیں مگر کوئی بھی تردد  ان کے پائے شوق میں زنجیر نہیں پہنا سکی ۔کہیں بار منہ کی بھی کھانی پڑی مگر کبھی بھی منفی سوچ کے شکار نہیں ہوئے۔بلکہ شوق دل کا عالم یہ تھاکہ بالی ووڈ کے ساتھ ساتھ ڈرامے کی کائنات میں بھی باکمال جوہر دکھانے کے لیے خود کو کمر بستہ کرتے رہیں۔
عرفان خان کی زندگی میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب ان کی دوستی قومی اسکول آف ڈراما میں سوتاپا دیویندر سکدر سے ہوئی جو ایک بنگالی خاتون تھیں۔ان کو بھی اداکاری کا کا بہت شوق تھا بلکہ دونوں کا ملن اسی وسیلے سے ہوا جو بعد میں۱۹۹۵ء میں ازدواجی زندگی میں بدل گیا۔سوتاپا کے بطن سے ان کے دو بیٹے با بل اور عیان ہیں۔سوتاپا نے اداکاری سے زیادہ مکالمہ لکھنے کی جانب توجہ مبذول کی۔ دونوںکو اپنے پیشے سے کمال حد تک کا عشق تھا۔ عرفان خان نے مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی تھیئٹرسے اپنا ناطہ بنائے رکھا۔
۲۰۱۸ء میںنیرو اینڈوکرائن ٹومر( neuroendocrine tumor)ہونے کی وجہ سے ان کے آنتڑیوں میں انفکشن ہوگیا تھا جس کی وجہ سے زندگی کے آخری دو چار سال وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے اورآخر کار ۲۹/اپریل ۲۰۲۰ء کو دنیا کی ۵۳/ بہاریں دیکھ لینے کے بعد اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔کچھ دن پہلے ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا تھابلکہ بعض لوگوں کو کہنا ہے کہ یہیں ٹریجڈی ان کے موت کی باعث بنی۔دنیا کو الوداع کرنے سے پہلے انہوں نے بستر مرگ پر ماں کے بارے میں سوتاپا سے مخاطب ہوکر کر کہا’’ وہ میری طرف بیٹھی ہوئی ہیں ۔اماں مجھے لینے آئی ہیں۔۔۔‘‘۔ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ 
اداکاری کے بارے میںعرفان خان کا کہنا ہے کہ یہ میرے لیے جینے مرنے کا فن ہے‘‘۔ ان کے پاس کہنے یا کرنے کے لیے جو بھی مواد ہوتاتھاوہ اسے ایک خاص فنی و تکنیکی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔وہ اپنے جسمانی اعضاء کے حرکات و سکنات اور انداز گفتگوسے فلموں میں بھی ڈرامے کا رچائو پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔آنکھوں کی جنبش سے بہت کچھ کہہ دیتے اور ناظرین کی جذباتی حس کو چھیڑنے پر بھی بڑی دسترس رکھتے تھے ۔ علاوہ ازیںانہیں انسانی جسم کے اندر خارجی و باطنی کیفیات(سوز و گداز،خوف، حیرت، سکون ،تنفر،رومان وغیرہ) کو موقع و محل کی مناسبت سے ایکٹوکرنے پر منفردکمال حاصل تھا۔ ان کے اندر سو طرح کے اداکار چھپے ہوئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر طرح کے رول نبھانے کے لیے تیار رہتے تھے۔کتنا بھی کھٹن کام کیوں نہ ہو وہ پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنا جانتے تھے۔وہ جس حالات میں ہوتے تھے ٹھیک اسی حالت میں کیمرے کے سامنے آتے تھے۔ان کے یہاں منصوعی رنگ و روغن کم اور فطری پن زیادہ یایا جاتا تھا۔ کم شبدوںمیں بڑی سے بڑی بات کہنے میں کمال کا درجہ رکھتے تھے اور بات اس انداز سے کرتے تھے کہ ناظرین حساسیت کے ساتھ متوجہ ہوتے۔انہوں نے تیس سالہ فلمی کرئیرمیں لوگوں کے دل فتح کرنے کے علاوہ فن اداکاری کوکمال معراج تک پہنچاکر بالی وڈکی دنیا میںشہرت عام اور بقائے دوام کا درجہ حاصل کیا ۔
عرفان خان کا ایک خاص وصف یہ بھی تھا کہ وہ دوسرے کرداروں میں ڈھل کربڑی آسانی کے ساتھ ان کی اوریجنل شبیہ اتارتے تھے۔اس حوالے سے ان کی متعدد فلمیں اور ڈرامے منظر عام پر آچکے ہیںجن میں خاص طور پر ’’کہکشاں ‘‘ کا نام نمایاں اہمیت کی حامل ہے۔اس سیریل میں عرفان نے اردو کے نامور شاعر مخدوم محی الدین کا رول ادا کیااور پھر اسی طرح ’’جے ہنو مان‘‘ میںہندو شاعر والمیکی اور’’اسپائڈر مین‘‘ میں راجیت کا رول پیش کرکے ناظرین کا دل جیت لیا۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عرفان خان نے جن فلموں میں اداکاری کی ہیں ان میں پیشتر فلموں کی کہانی پرکشش،دلچسپ ،  سچائی اور زندگی کی حقیقتوں پر مبنی ہیں۔مثلاََمداری، حیدر، غنڈے، پیکو، تلوار، لنچ بکس، لائف ان میٹرو، حاصل ،وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جن میں عصر حاضرکی تلخ حقیقتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔علاوہ ازیں انہوں نے ان فلموں میں ہندوستان کی پرمپرا کو خوش دلی سے فروغ دینے کی سعی کی۔
ان کی کردار نگاری کے مداح خواں ملک کے ساتھ ساتھ بیرونی ملک میں بھی پھیلے ہوئے ہیںجن کی تعداد بے شماد ہیں ۔ان کی فنکاری کا اعتراف کرتے ہوئے بالی وڈ کے سپر اسٹاراداکارامیتابھ بچن کا کہنا ہے ۔ـــ’’ عرفان خان بے پناہ ٹائیلنٹ کے حامل تھے اور ایسے اداکار تھے جنہوں نے سینما کو بہت کچھ دیا۔وہ بہت جلد ی چلے گیے اور اپنے پیچھے بہت بڑا خلا چھوڑ گیے۔‘‘اداکارہ پرینکا چوپڑا نے بھی ان کی سراہنا ان الفاط میں کی ’’ آپ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ایک متاثر کن شخصیت تھے۔آپ نے اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کے لیے راستے بنائے۔‘‘ان کی کلاکاری سے ہزاروں اداکار مستفید ہوتے رہیںجن میں دپیکا،صبا قمر،سونم کپور،عمران ہاشمی،سپرتی زینتا،دیپاک چوپڑا وغیرہ شامل ہیں۔بقول انوشکا شرما :عرفان خان کی پرفارمنس میرے لیے بہت متاثر کن رہی۔وہ اپنی زندگی کے لیے لڑتے رہے مگر افسوس آج وہ ہم میں نہیں ہے۔‘‘عرفان خان نے فلمی دنیا کے علاوہ زندگی کے دیگر ہائے شعبوں سے تعلق رکھنے والے بلند پایہ شخصیات سے بھی داد و تحسین وصول کیں۔راہل گاندھی ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں: عرفان خان ایک مایہ ناز فنکار تھے۔وہ فلم اور ٹی وی کی دنیا میں بھارت کے سفیر تھے۔‘‘غرض اعتراف کیا جاسکتا ہے کہ عرفان خان ایک ہمہ  جہت شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ہرفن مولا تھے۔لہٰذاان کی شخصیت اور فنکاری کو ایک مضمون میں قلم بند کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔مجموعی طور پر احقر اس مضمون کوان الفاظ کے ساتھ اختتام کرنا چاہتا ہے کہ عرفان خان کو ادب ، اسٹیج ،ٹھیئٹرکے ساتھ والہانہ عشق تھا ۔وہ ادب اور فن کی دنیا میں بہت کچھ سرمایہ چھوڑ کر ہم سے رخصت ہوئے۔ اب ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ ہم ان کے فن اورمقصدکو کامیابی کی سب سے اونچی منزل تک لے جانے کی کوشش کریں ۔ 
(مضمون نگارسینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر کے ریسرچ سکالر ہیں)
ای میل۔[email protected]
فون نمبر۔7780936355