رمضان المبارک ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے فکر و فہم

نذیر الحسن تبسم، بارہمولہ
اللہ رب العزت نے انسان کو سب سے زیادہ افضل ، اکرم و اشرف بنا کر ہم پہ احسان کیا ہےاور ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ اسکے علاوہ اللہ سبحانہ و تعالی اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ پاک ہمیں بار بار مواقع فراہم کرتا ہے کہ بھولا، بھٹکا میرا بندہ واپس آئے ، لوٹ آئے ۔اگر میری طرف ایک بالشت آئے میں دس قدم آئوں۔بس ایک انسان کو چاہیے، وہ بصدق دل توبہ کریں۔اسی کی ایک کڑی یہ ہے کہ الحمدللہ ہمارے اوپر برکت ، عظمت ، رحمت اور مغفرت والا مہینہ ( رمضان المبارک) سایہ فگن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے، وہ ایساہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے، یہ مہینہ صبرکا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے، اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیاجا تا ہے، جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کےلیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا ، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے۔
 نبی کریمؐ نے تاکید فرمائی ہے کہ رمضان المبارک کی قدر کی جائے، اسکا ایک لمحہ بھی ضائع نه کیا جائے، غفلت سے نہ گزر جائے ، حضوراکرمؐتراویح کی تاکید فرماتےتھے، اس وجہ سے سب ائمہ اس کے سنت ہونے پرمتفق ہیں۔چنانچہ قرآن پاک لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر تمام کا تمام اس ماہ میں نازل ہوا، اور وہاں سے حسب وقع تھوڑا تھوڑا تئیس(23 ) سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔اسی وجہ سے تلاوت کی کثرت اس مہینہ میں منقول ہے اور مشائخ کا معمول رها ہے۔ من جملہ تلاوت کا خاص اہتمام جتنا بھی ممکن ہوسکے ،کرے۔ اور جو وقت تلاوت سے بچے، وہ بھی ضائع کرنا مناسب نہیں۔ اس کو بھی ذکرواذکار ، نوافل میں صرف کریں۔
         نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے یعنی اگر روزہ وغیرہ میں کچھ تکلیف ہو تو اسکو برداشت کر نا چاہیے، یہ نہیں کہ مار دھاڑ ، ہول پکار،لعن طعن، گالی گلوچ جیسا کہ ایک طبقہ کے لوگوں کی گرمی کے رمضان میں عادت ہوتی ہے، اسی طرح اگر اتفاق سے سحری نہ کھائی یا رات کی تراویح میں دِقت ہو تو اس کو بڑی بشاشت سے برداشت کرنا چاہیے ،اس کو مصیبت اور آفت نہ سمجھیں کہ یہ بڑی سخت محرومی کی بات ہے ۔ ہم لوگ دنیوی معمولی اغراض کی بدولت کھانا پینا راحت و آرام سب چھوڑ دیتے ہیں ،کیا اللہ پاک کی خوشنودی کیلئے ہم تھوڑا سا برداشت نہ کر سکیں ۔رمضان غم خواری کا مہینہ ہے یعنی غرباء ، مساکین کے ساتھ مداوات ، مساوات اور نیک برتاؤ کرنا چاہیے۔ اگر چار چیزیں رمضان میں اپنی افطاری کے لیے تیار کی ہیں تو دو چارغرباء کے لئے بھی کم از کم ہونی چاہئیں، ور نہ اصل تو یہ تھاکہ ان کے لیے اپنے سے افضل نہ ہوتا تو مساوات ہی ہوتی ۔ غرض جس قدر بھی ہمت ہو سکے اپنے افطار و سحری کھانے میں غرباء کا حصہ بھی ضرور لگانا چاہیے ۔دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ اللہ پاک روزہ داروں کی مزدوری ( جزاء) خود عطا فرمائیں گے۔
 ظاہر ہے کہ نفس کو برائیوں سے روکنا اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ روزہ ہے۔رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے رمضان میں قیام کرے گا (یعنی تراویح اور نوافل وغیرہ پڑھے گا) اس کے پچھلے اور اگلے سب (صغیرہ) گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔
ایمان اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں پر یقینِ کامل ہو اور ہر عمل پر ثواب کی نیت اور اخلاص وللّٰہیت اور رضائے الٰہی کا حصول پیشِ نظر ہو۔
یہ مقدس مہینہ ہم سے تقوی، ایثار و ہمدردی کا تقاضا کرتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس مقدس مہینہ کی قدر کریں۔ اس میں تقویٰ حاصل کریں۔ اللہ پاک کی خوشنودی حاصل کریں۔یہ صبر کا مہینہ ہے اپنے آپ میں صبر وتحمل اور برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔ یہ اخوت اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بیواوں، محتاجیوں ، مساکین اور غربا کا خیال رکھیں۔ ایثار ، ہمدردی ، مروت کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں۔ ہمیں اپنا ظاہر و باطن صاف کرنا چاہیے۔اپنے گناہوں پر نادم ہوکر سچے دل سے توبہ کریں۔ ہمیں اپنے دل کو کینہ ، بغض، عداوت ، دشمنی ، حسد ، قطعہ رحمی سے صاف و پاک کرنا چاہیے۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔