درویش صفت ،عمردرازمحافظ

 کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آسان ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
کلبہ افلاس میں دولت کے کاشانے میں موت
دشت ودر میں شہر میں گلشن میں ویرانے میں موت
واقعی کلبہ افلاس میں دولت کے کاشانے میں موت تو آسان ہے لیکن زندگی مشکل ہے۔ علامہ اقبال کی ایک طویل نظم ہے،والدہ مرحومہ کی یاد میں۔ بے شک موت ابدی حقیقت ہے اور اٹل ہے کہ نغمہ بلبل ہو یا آواز خاموش ضمیر در اصل ہرشے میں زندہ ہوتا ہے لیکن اسی زنجیر عالمگیر میں ہر شے اسیر ہے۔ حال ہی میں 25 اگست کو چرارشریف کے وانی خاندان کا ایک درویش صفت بزرگ حاجی عبدالرحیم وانی المعروف گوسو داعی اجل ہوئے۔ عبدالرحیم وانی محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔یوں تو جب پولیس کا نام آتا ہے تو انسان کانپ اٹھتا ہے اور دل ودماغ میں عجیب وغریب سوالات اْمنڈ آتے ہیں ، جیسے مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ، رشوت، گالی گلوچ، ایف آئی آر، جھو ٹے مقد مات وغیرہ وغیرہ۔ مگر ہر شے بْری نہیں ہوتی بلکہ الگ الگ نوعیت کی ہوتی ہے اور ہر پولیس والا برا بر نہیں ہوتا بلکہ کچھ اعلیٰ مقام والے بھی ہوتے ہیں، باکردار بھی ہوتے ہیں، پاک باز بھی اور مومن صفت بھی۔ کچھ گفتار سے بھی نیک ہوتے ہیں اور کچھ فقیروں کے بھیس میں بھی ہوتے ہیں۔ ایسے پولیس آفیسر میں نے بھی دیکھے ہیں۔ بات ہورہی ہے حاجی عبدالرحیم وانی صاحب کی، ایک نام ہے۔ ایک پولیس آفیسر تھے۔ 1928 ء میں چرار شریف کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مرحوم احد جو وانی تھا، کسی زمانے میں گوسو پلوامہ سے ہجرت کی تھی اور چرار شریف میں مقیم ہوئے۔ 1946 میں میٹرک کا امتحان دیا تو اسی دوران محکمہ پولیس میں ملازم ہوئے اور پولیس انسپکٹر کے عہدے سے ملازمت کو خیر باد کیا۔ حاجی صاحب نے بیا نوے سال کی عمر پائی۔ انتہائی شریف اور درویش صفت تھے۔ پابند صوم وصلوات کے ساتھ ساتھ روحانی عالم کے متماشی بھی تھے۔ مرحوم غلام محمد آخون سے روحانی تربیت حاصل کی تھی ، حاجی صاحب خاموش طبیعت کے مالک تھے اور اس عمر میں بھی گھر کے کام کاج میں مصروف رہتے تھے۔ میں نے جب بھی انکو دیکھا تو یاتو ہاتھ سبزی یا دودھ کا لوٹا ہوتا اور کسی اور عالم میں گم سم رہتے تھے۔ شاید کبھی حیران نہ ہوتا تھا اور نہ ہونٹوں پر خواہ مخواہ تبسم ہوا کرتی تھی اور نہ لبوں پر سراسیمگی ہوتی تھی۔ یہ خدا کا بندہ درگاہ چراشریف میں روزانہ حاضری دیتا تھا اور آنکھوں میں آنسوئوں کے سمندر ہوتے تھے۔ شاید کہ شبنم کی شادابی نہیں راس آتی تھی بلکہ قلب کی حرارت رقص وعیش ومستی سے دور حقیقی تلاش میں محو رہتے تھے۔ یوں تو وہ یا ان سیڑھیوں کے پابہ پابہ انجمن سازی کے عالم تھے یا جبل نور کے قدم قدم پر کسی کے انتظار میں رہا کرتے تھے۔ واقعی نیک اور پرہیز گار تھے ، شاید کہ انکے مرشد گرامی نے کچھ ایسا سکھا یا تھا کہ اصل مقصد حیات کیا ہے ،جوانی سے پیری تک دو حرف تو سکھلاگئے۔ ایک حیات کا نصب العین سکھا دیا، یہ کارسازی ہے اور کا میابی بھی۔یوں تو جب بھی پولیس کی بات ہو اور ایسے آفیسروں کی بات ،تو تعجب ہوگا کہ پرہیز گار اور درویش صفت بھی ہوتے ہیں پولیس میں۔ وانی مرحوم کا معمول تھاکہ صبح تین بجے بستر سے اٹھ کر وضوع بناکر جا ئے نماز پرآتے اور گڑ گڑا کر روتے تھے، موسم سرما میں بھی اور آغوشِ بہار میں بھی تلاوت سے فارغ ہوکر گھر کا کام کاج سنبھالتے تھے اور جب بات چلے پولیس کی تو عمر دراز پانے والوں میں اور عمر بھر کی محنت وعمل کا نتیجہ ہمارے سامنے ہی تو ہے۔ یہ شبیہ سالہا سال آنکھوں کے سامنے رقصاں ہی رہے گی اور یاد بھی رہے گی۔اللہ ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس عطا کرے۔ آمین