حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ بزرگانِ دین

خالد اقبال جیلانی

دعوت دین اور اصلاح معاشرہ میں صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ جنہوں نے اسلامی تاریخ کے ہر دور میں دین کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ایسے ہی اولیائے کرام میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ کی پیدائش 636ھ میں بدایوں میں ہوئی، لیکن اس کے بعد بچپن سے وصال تک ساری زندگی دہلی میں بسر ہوئی۔ دہلی ہی میں آپ کی تعلیم مکمل ہوئی۔ عام مروجہ علوم کے ساتھ آپ قرآن وحدیث ، فقہ و تصوف، لغت و ادب میں اپنے وقت کے جید عالم، مفسر، محدث اور فقیہ و صوفی تھے ،تمام مروجہ علوم کی کتابوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔
آپ دنیائے تصوف کے عظیم چشتی بزرگ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒکے مرید اور خلیفہ تھے۔ آپ نے تصوف اور سلسلۂ چشتیہ کی تمام تعلیمات و معمولات و مشاغل کی تربیت پاک پتن میں حضرت بابا فرید الدینؒ کی زیر تربیت مکمل کی ۔آپ اپنے مرشد کی صحبت میں کامل ایک سال رہے اور اپنے مرشد ِ کامل کی توجہات و عنایات کے طفیل ظاہری علوم کے ساتھ تزکیۂ نفس کی دولت سے بھی مالا مال ہو گئے۔ جب آپ یہاں آئے تھے تو صرف نظام الدین تھے ،مگر جب خانقاہ فریدیہ سے رخصت ہوئے تو ’’ محبوب الہٰی ‘‘ بن چکے تھے۔ حضرت گنج شکرؒ سے خرقۂ خلافت پانے کے بعد آپ دہلی کے قریب غیاث پور میں آباد ہوئے اور کافی مدت عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔
دہلی کے قیام کے دوران خلقِ خدا نے حضرت خواجہ نظام الدینؒ سے جس طرح فیض اٹھایا، وہ تصوف کی تاریخ میں اپنی نظیر آپ ہے ۔آپ کے اشاعتِ اسلام ، تبلیغ دین اور لوگوں کی اصلاح و تزکیہ کے معاشرے پر اثرات کا حال آپ کے ایک ہم عصر تاریخ ِ فیروز شاہی کے مصنف ضیاء الدین برنی لکھتے ہیں ’’ اسی زمانے میں شیخ الاسلام نظام الدین ؒ نے بیعت عام کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ یہ گناہ گاروں کو خرقہ پہناتے اور ان سے توبہ کراتے، ہر شخص خواہ خاص ہو یا عام، مالدار ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر ، عالم ہو یا جاہل ، دیہاتی ہو یا شہری، آزاد ہو یا غلام سب لوگ اپنے آپ کو حضرت ؒ کا مرید اور خدمت گار سمجھتے تھے اور بہت سی ناکردنی باتوں سے پرہیز کرتے اور اگر حضرت ؒ کے یہاں آنے والوں میں سے کسی سے کوئی لغزش ہو جاتی تو وہ بیعت کی تجدید کر کے تو بہ کا خرقہ آپ سے لیتا تھا ۔ خواص اور عوام کے دلوں کے دلوں میں نیکی اور نیکوکاری نے جگہ پکڑ لی تھی۔ مرد وعورت ، بوڑھے ، جوان، عامی، غلام اور نوکر سب نماز ادا کرتے تھے، زیادہ تر مرید چاشت اور اشراق کے پابند ہوگئے تھے۔ (تاریخ فیروز شاہی، 343)
حضرت خواجہ نظام الدین ؒ پچاس سال کے طویل عرصہ دہلی میں اپنے اخلاق اور اعمال حسنہ کے ذریعے تبلیغ و تزکیہ میں مصروف رہے۔ ’’نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا‘‘ ’’کے اصول پر آپ نے پوری زندگی اللہ کی مخلوق کی خدمت اور اصلاح کے لئے وقف کردی ، مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی آپ کے حسنِ اخلاق کے گرویدہ تھے۔ آپ کا مسلک یہ تھا کہ بلاامتیازِ مذہب و ملت سب کی غم خواری کی جائے ۔ فرمایا کرتے تھے ’’قیامت کے بازار میں کسی عمل کی اتنی مانگ نہیں ہوگی ،جتنی دلوں کو راحت پہنچانے کی۔‘‘
حضرت خواجہ نظام الدینؒ کی تعلیمات اور ملفوظات انسانی ہدایت کا بہترین سرچشمہ ہیں، ترک دنیا کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا ’’ترک دنیا یہ نہیں کہ کوئی شخص کپڑے اتار کر لنگوٹ باندھ کر بیٹھ جائے ،ترکِ دنیایہ ہے کہ وہ لباس بھی پہنے، کھانا بھی کھائے، البتہ جو کچھ اس کے پاس آئے، خرچ کرتا رہے، جمع نہ کرے، اس کی طرف راغب نہ ہو اور دل کو کسی چیز سے وابستہ نہ کرے،‘‘ فرمایا کہ ’’دنیا ہاتھ میں رکھنی جائز، جیب میں رکھنی جائز ،دل میں رکھنا ناجائز۔‘‘خانقاہِ نظامی سے دین کی اشاعت و ترویج اور لوگوں تزکیہ و تربیت کے ساتھ ایک عظیم الشان لنگر خانہ بھی قائم کیا، جہاں سے ایک مخلوق روحانی غذا کے ساتھ جسمانی غذا بھی حاصل کرتی۔
آپ نے اپنے دور میں انسان سازی کا سب سے اہم کارنامہ انجام دیا۔ اس کی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ ہندوستان کی صوفیانہ تاریخ میں وہ پہلے صوفی بزرگ ہیں ،جن کی تعلیمات کے اثرات ان کی زندگی ہی میں پورے ہندوستان میں پھیل گئے ۔ آپ نے ہندوستان کے طول و عرض میں اپنے خلفاء کو تبلیغ اسلام کے لئے روانہ کیا ۔
حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ نے آپ کے لئے بارگاہ خداوندی میں دعا کی کہ ’’ اے اللہ، نظام الدین کو ایسا درخت بنا دے جس کے سائے میں ایک خلق کثیر آسائش و راحت پائے ،ان کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ مقبول و مستجاب ہوئے اور آپ زندگی ہی میں نہیں، وفات کے بعد بھی ایک ایسے شجرسایہ دار بن گئے جس کے نیچے مادیت کی تپتی ہوئی دھوپ میں جھلسنے والے آج 800سال بعد بھی سستا رہے ہیں۔ آپ کی تعلیمات آج بھی موجود ہیں جنہوں نے کل بھی لاکھوں انسانوں کی زندگی بدل کر رکھ دی اور آج بھی اگر صدقِ دل سے ان پر عمل کیا جائے تو معاشرے میں روحانی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔