حاجی محمد اسماعیل پرے

 چاہنے والوں کو اپنے عزیزوں کی یاد آنا فطری عمل ہے لیکن جب بستی یا شہر کے بیشتر لوگ کسی شخص کے جانے پر انہیں بار بار  یاد کرتے ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جانے والے نے ضرور کو ئی ہر دل عزیز کام کیا ہے یا لوگوں کے دل اپنی محبت یا شفقت سے جیت لئے ہیں، اسی لئے ان کی یاد میں آنسو بہائے جاتے ہیں یا ان کے نام کی مالائیں پہنی جاتی ہیں یا پھر بات بات پر ان کا ذکر خیر چھیڑا جاتا ہے اور جیسے کہ صدقہ جاریہ فیض عام کی طرح مرنے والے نے رواں رکھا ہو۔جب لوگ اتنی تعریفیں کرتے ہیں اور مرحوم کے لئے جنت وصالی کی دعائیں دیتے رہتے ہیں یقینی طور پر ایسے افراد ملت کے مقدر کے روشن ستارے گردانے جاتے ہیں جو قوموں کی خاطر اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر ان کی بہتری کے لئے آگے آگے رہ کر عروج اور بدرجہ کمال اتم کی تاریخ رقم کرتے ہوئے ہمیشہ کیلئے امر ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہمت والے افراد اپنی جانیں بھی نچھاور کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور بنا کسی شک کے انہیں قوم کے معمار یا رہنمائے قوم کا نام دیا جاتا ہے۔ عین اسی طرح ان ہی اور ان جیسے ہزاروں اوصاف کے مالک ہماری بستی کے عرف عام میں بخشی دور کا حاتم کہلائے جانے والا شخص مرحوم حاجی محمد اسماعیل پرے رہے ہیں۔ حاجن میں پیدا ہوئے اور پورے علاقہ سوناواری کے لئے بالعموم اور حاجن کے لئے بالخصوص تمام عمر تعمیراتی اور فلاحی کام کرتے رہے۔لوگوں کی آسائشوں کیلئے راہیں ہموار کرنا ان کا شیوا تھا ،مجبور اشخاص کی دادرسی کرنا انکی فطرت میں شامل تھا ،پڑھے لکھے اور مستحق افراد کیلئے بہترین سرکاری نوکری فراہم کرنے کے لئے اکثر سفارشیں کرکے انہیں روزگار فراہم کراتے تھے۔سوناواری علاقے میں سرکاری ادارے قایم کرنے میں ان کا بنیادی اور اہم رول رہا ہے۔ ہسپتال بنوانا،مدارس کی تعمیر ،عبور مرور کے لئے دریا پرپل تعمیر کرانا،سڑکیں بنوانا،آبپاشی کی نہریں کھودوانا،پینے کی پانی کی سہولیات عوام تک بہم پہنچانا،باقی مختلف ضروری ادراے جو عوامی بھلا کے لئے وقف ہوں ،کو قایم کرانے میں موصوف کا نہایت ہی قایدانہ کردار رہا جنھیں ہر شخص آج بھی یاد کرکے دوسروں کو سناتا ہے۔ انکی بہادری ،قیادت ،فیاضی،غریب نوازی، سیاسی بردباری،حلیمی،جذبہ مروت،جذبہ حب الوطنی،شفقت،دیانت داری اور ایمان افروزی کے بہت سارے واقعات آج بھی علاقے میں مشہور ہیں اور موقع و محل کی مناسبت سے ہر جگہ بیان کیے جاتے ہیں۔ انکے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو کف افسوس مل کر ان کی جدائی کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہوئے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ بھیجنا ہماری زمین پر اک شخص ایسا ہی جو مخلص ہو ،غریب پرور ہو،سیاسی شعور رکھتا ہو،حکمت عملی سے پر ہو، تاکہ ہماری سیاسی سطح پر رہنمائی کرے اور علاقے کی تعمیر و ترقی اسی انداز میں کرے جس انداز میں مرحوم کرتے تھے۔
علاقہ حاجن تحصیل سوناواری میں جتنے بھی ابتدائی سطح پر تعلیمی ادارے ،باقی عوامی سہولیات کی خاطر سرکاری دفاتر ،ہسپتال،بلاک آفس ،تحصیل سوناواری دفتر جو سیلابی صورتحال کی وجہ سے بعد میں سمبل کالونی میں سوناواری تحصیل کے ہی نام سے عبوری طور پر قایم کیا گیا تھا ،ویٹرنری بلاک ،اور اسی طرح کے باقی دفاتر انہی کی کوششوں سے سرکار یعنی بخشی دور کی دین ہیں۔ مشہور زمان اور تباہ کن سیلاب انیس سو اناسٹھ نے جب عوام کی کمر توڑ ڑالی تو مرحوم نے بخشی غلام محمد کی توجہ سوناواری کی جانب مبذول کرائی اور اسی وجہ سے تھڑ ڈیفنس لاین ولر کے پانی کو روکنے کے لئے انیس سو ساٹھ میں قایم کرانے کا پروجیکٹ ہاتھ میں لیا گیا اور عوام مرد و زن کو کام پر لگایا گیا۔ اس طرح سے ان کی مالی حالت سدھر گئی۔ مشہور ہے کہ اس دور میں حاجی صاحب نے اپنی ذاتی پونجی بھی حاجت مند اور مفلس لوگوں میں تقسیم کی اور یہ عہدو پیماں قایم کیا کہ ان کے ہوتے ہوئے علاقے کا کوئی شخص بھوکا نہیں سوئے گا۔سوناواری تحصیل ہیڈکوارٹر قایم کرنے کے بعد میں ایک سرکاری آفیسر کشب بندھو جی کو سوناواری کا ایڈمنسٹریٹر قایم کیا گیا۔ انکی تحریک سازی نے علاقے کا نقشہ ہی بدل دیا۔ پوری تعمیر و ترقی کی ذمہ داری محکمہ ار ی گیشن سوناواری کو سونپی گئی جنھوں نے علاقے میں تمام تعمیرات قایم کئے۔ بخشی صاحب نے علاقہ سنی وور کا نام تبدیل کرکے سوناواری رکھا اور یہ اعلان نامہ جاری کیا کہ آج سے لوگ سنی واری کو سوناواری کہیں گے۔سوناواری کو اس دور میں مرکزی اہمیت دیکر حکومت وقت نے سنٹرل پولیس کا درجہ دیا یہاں بہت سارے عوامی دربار کیے، مختلف کیبنٹ میٹنگیں کیں جن میں حکومت کے تمام وزرا کو موجود رہنا پڑتا تھا، دربار کی خاطر علاقہ حاجن میں قایم منڈی بر لب دریائے جہلم کو منتخب کیا جاتا تھا۔جشن کشمیر انیس سو بہاسٹھ میں اسی جگہ منایا گیا جس میں مختلف پروگرام دکھائے گئے تھے ،تمدنی یا کلچرل پروگراموں کی ذمہ داری مرحوم ماسٹر عبدل کریم خستہ ساکنہ حاجن کو سونپی گئی تھی جنھوں یہ ذمہ داری بحسن خوبی انجام دیکر داد تحسین حاصل کی۔
حاجی محمد اسماعیل پرے پیشہ کے لحاظ سے ٹھیکیدار تھے لیکن مخلص قیادت کی بنیاد پر انہیں اچھا خاصا عوامی منڈیٹ حاصل تھا۔ عوام کو ان پر پورا اعتماد تھا، اسی لیے ان کی ایک آواز پر لوگوں کا سیلاب امڈ آتا تھا۔ لوگوں کی بہبودی کیلئے کام کرنا انکی زندگی کا منشور بن چکا تھا، دوست دشمن سب انکی فیاضی کو بار بار یاد کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ انکے دولت خانے پر دن رات لنگر چلتا تھا، کوئی آیا ہوا مہمان چائے کا تقاضا کرتا تو چائے مل جاتی، کوئی کھانے کی خواہش ظاہر کرتا تو کھانا پیش کیا جاتا تھا، جو بھی سرکاری آفیسر کسی کام کے سلسلے میں یہاں آتا تو اس کی تمام تر ضرورتوں کا اہتمام حاجی صاحب ذاتی طور پر کرتے۔ انتظامیہ سے وابستہ اعلیٰ آفیسران انکی نہایت قدرومنزلت کرتے ،انکی ہر بات مستند ہوتی تھی، اس اعتبار سے صاحب اثر رہنما تھے۔ انکے بارعب ہونے کے بہت سے قصے مشہور ہیں ۔مثالی لباس زیب تن کرنا ان کا معمول تھا ۔ضلع بارہ مولہ کی ٹھیکیدار برادری میں ان کا مقام نہایت خوب رہا ہے۔ سلیقہ شعاری سے اپنے تمام ہم جلیس لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ اللہ نے انھیں فیصلہ سازی کا خوبصورت ہنر اور حق بر تسلیم عطا کیا تھا۔ انکی ذاتی کاوشوں سے بہت سارے پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ میرے خیال میں اتنی دعائیں کسی کو آج بھی نہیں ملتی ہونگی جتنی مرحوم نے اپنے لئے کمائی ہیں۔انکے دور میں علاقہ حاجن کی تمام بیرونی اور اندرونی سڑکیں میکڈمائز ہوئی تھیں ،اس وقت کچی نالیوں کے ذریعے سے پانی کی نکاسی کا جو پروجیکٹ انہوں نے آفیسران سے ترتیب دلوایا تھا، اس سے سارے علاقے کا بارشوں سے جمع پانی نکل جاتا تھا ۔اب حکام موجودہ دور میں اسی کو کنکریٹ سطح پر عملا رہے ہیں۔جن وزرائے اعلی اور وزرا نے ان کی رسمی یا غیر رسمی سعی کی بنیادوں پر سوناواری کا دورہ خاص کیا ہے ان میں خاص طور پر بخشی غلام محمد ،صادق صاحب اور شیخ محمد عبداللہ صاحب قابل ذکر ہیں۔رادھے ناتھ بخشی اور عبدلرشید میر اس دور کے اسسٹنٹ ا یگزیکٹیو انجینئر محکمہ ایری گیشن و فلڈ کنٹرول ایسے دو آفیسر رہے ہیں جنھوں نے بہت ہی لگن اور محنت سے علاقے میں کام کیا ہے۔
حاجی محمد اسماعیل پرے اور سوناواری کے فنوڑر ایم ایل اے جناب عبدل خالق بٹ پرنگی غیور کی سیاسی معرکہ آرائی اپنی ایک الگ داستان رکھتی ہے لیکن معرکہ آرائی میں دونوں کے درمیاں کوئی غیر اخلاقی عمل پیش نہیں آیا ہے۔ دونوں کے حامیوں میں متعدد بار جم کر لڑائیاں بھی ہوئی ہیں۔ بالآخر دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف اور پھیلی نفرت کو ختم کیا۔ مشہور واقعہ ہے کہ غیور حاجی صاحب کی عیادت کرنے کے لیے آئے اور دونوں نے آنسو بہاکر ایک دوسرے کو معاف کردیا۔ حاجی صاحب کا انتقال انیس سو اٹھاتہر میں ہوا اور اس طرح سے یہ تعمیر و ترقی کا آفتاب گل ہوگیا جس کی روشنی اور حرارت یا گرمی کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ بھیجنا ہماری رہنمائی کے لئے ایسا ہی کویی مخلص اور قدآور رہنما جو ہماری مصیبتوں کو دور کر سکے۔ 
( مصنف گورنمنٹ ڈگری کالج حاجن میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔اس کالم کو لکھنے کی تحریک راقم کو ان واقعات سے ملی جو میں نے مختلف بااثر لوگوں کی زبانی موصوف سے متعلق سنے۔ اگر کسی کے پاس اس حوالے سے مزید معلومات ،انفارمیشن موجود ہے تو برائے مہربانی راقم تک ٹیلی فون کے ذریعے یا تحریری طور پہنچائیں)
 رابطہ۔ [email protected] /8825001337
���������