! تیرے جانے کے بعد کہانی

شام ہوتے ہی ملہار نے اپنے کمرے کی ساری کھڑکیاں اور روشن دان ٹٹول کر ان پر پردے ڈال دیئے ۔ اچھے سے پورے گھر کا جائزہ لے کر خود کو مطمئن کیا۔وہ کبھی ڈرتی نہیں تھی۔

البتہ وہ ایک بار وقت اور حالات سے گھبرا کے ڈر گئی تھی۔ ہاں ایک بار ! ان دنوں جب شادی کے کچھ ہی سال ہو چکے تھے۔ ایسا ہی گرمیوں کا موسم تھا سورج کی شدید گرمی جھلسا رہی تھی ۔آگ برساتی کرنیں تمام پرندوں اور چرندوں کو گرمی سے نڈھال اور پریشان حال کئے ہوئے تھی۔ نازک بدنوں پر لو کے تھپیڑے اور کوڑے برسا رہی تھی۔

اس دن اس کے شوہر خرم کو کاروباری میٹنگ میں جانا تھا۔ ملہار نے اس کے لئے خوبصورت نیلے رنگ کا سوٹ اور میچنگ ٹائی منتخب کر کے پہننے کا اصرار کیا، کیونکہ خرم پر یہ رنگ بہت اچھا لگتا تھا ۔ وہ ہر لحاظ سے خرم کا خیال رکھتی تھی۔ اور خرم بھی اپنی خوبصورت بیوی ملہار پر جی جان سے فدا تھا۔
خرم نے پہلے ماں سے رخصت لی اور ہمیشہ کی طرح اُس دن بھی سو روپے کا نوٹ ماں کے سرہانے رکھا۔

ماں، جو ہر وقت مصلیٰ پر بیٹھ اللہ کی عبادت میں مصروف رہتی تھی،سر اٹھا کر دعائیں دیتے ہوئے کہنے لگی ،مجھے نہیں چاہے بیٹا، میں ان روپوں کو لےکر کیا کروں گی۔خرم نے ماں کے نورانی چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ، اماں! کبھی کوئی اللہ کا بندہ دروازے پہ آکے سوال کرتا ہے آپ اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹا دو اس لیے دیتا ہوں انکار مت کیا کرو۔ماں نے ڈھیر ساری دعائیں دے کر اسے رخصت کیا۔

اس کے بعد خرم نے ملہار کے ماتھے کو چوم کر کہا، ‘ میں تین چار بجے تک واپس آوں گا، دعوت پر جانا ہے تم تیار رہنا ‘ وہ دونوں ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی۔
گاڑی تیار ہے صاحب ! ڈرائیور سلیم نے قدرے اونچی آواز میں کہا ۔ اس کے ساتھ ہی خرم خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکل گیا۔

اس سال سوکھا پڑ گیا تھا۔ بستی کے آس پاس درختوں پر چیل اور کوے سوکھی ٹہنیوں پر آکر بیٹھنے لگے۔ عجیب سی دہشت بھری آوازیں نکال کر ماحول کو مایوس کن بنا رہے تھے۔ملہار نے ایک کٹوری میں مٹھی بھر چاول اور دوسری میں پانی ڈال کر برامدے میں پرندوں کے لئے رکھ دیئے۔ پرندوں کا خیال رکھتے ہوئے پیچھے ساسو اماں ملہار کو دیکھ رہی تھی۔ ہاتھوں کی انگلیوں میں تسبیح کے دانے پھیرتے ہوئے اس نے نیم وا آنکھیں اوپر اٹھائیں اور درختوں، پرندوں اور آسمان کا بغور جائزہ لے کر کہا، ملہار بیٹی یہ پرندے جب فضا میں موت کی بو سونگھ لیتے ہیں تب ہی ایسی آوازیں نکالتے ہیں اور اسی گھر یا بستی کی اردگرد پرواز کر تے ہیں جہاں انہونی واقع ہونی ہو۔

رب کریم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، ملہار نے دونوں ہاتھ اوپر آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے دل سے دعا کی اور واپس رسوئی گھر کا رخ کیا۔ ملہار نے دونوں بچوں کو سکول بھیجنے کے بعد اپنے اور ساسو اماں کے لیے چائے کی ٹرے دسترخوان پر لاکر رکھ دی۔خود گاؤ تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھ گئی۔ چند لمحوں بعد ایک لمبی سانس لے کر چائے بنانے میں مصروف ہو گئی۔ چائے پیتے ہوئے ساسو اماں نےخرم کے دئیے ہوئے سو سو کے نوٹ تہہ کرکے چھوٹی سی تھیلی میں رکھ دیئے ۔ گلابی رنگ کی یہ تھیلی، جس پر آری کا کام کیا ہوا تھا، سنبھال کر ایک طرف رکھ کر چائے کی چسکیاں لینے لگی۔ کئی سالوں سے یہ سو سو کے نوٹوں کی تھیلی ایک چھوٹے موٹے تکیے کی صورت اختیار کر گئی تھی۔

چائے پینے کے بعد ملہار نے گھر کا سارا کام ختم کیا۔
پھراس نے اپنے لئے، عطر گلاب، سنگار بکس اور سجنے سنورنے کے دیگر لوازمات قد آدم آئینے کے سامنے رکھ دیئے۔پہننے کے لیے مخصوص بنارسی سوٹ، گلے کے لئے ست لڑا ہار، گوری باہوں کے لئے سونے کے بھاری کنگن، پاؤں کے لیے بچھیاں، سونے کی پائل اور زری والے جوتے منتخب کیئے کیونکہ شام کو سج سنور کے خرم کے ساتھ دعوت پر جانا تھا۔

بچوں کی اسکول سے واپسی کے بعد اب وہ خود بن سنور کے تیار ہونے لگی۔کچھ دیر بعد اس نے پارٹی کے لئے مکمل تیار ی کرلی ۔ اب صرف خرم کے آنے کی دیر تھی۔
پارٹی والا لباس، آنکھوں میں گہرا کاجل، چہرے پر لالی، بھاری کنگن اور پاؤں میں پازیب پہن کے ملہار خرم کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی پھر تیز تیز قدم اٹھا کر ادھر ادھر ٹہلنے لگی، ہر قدم پر نکلتی ہوئی پائل کی جھنکار پورے گھر میں موسیقی کا سماں باندھ رہی تھی۔ ، ملہار کو یہ بے رحم انتظار کی چند گھڑیاں بھی صدیوں سے بھاری لگ رہی تھی۔دھیرے دھیرے انتظار کے لمحے گھنٹوں میں بدل گئے۔

جوں جوں خرم کو آنے میں تاخیر ہوتی گئی ملہار کی بےقراری بڑھنے لگی۔ خرم گھریلو ذمہ داریاں خوب نبھانا جانتا تھا۔ پہلے کبھی اس کو آنے میں اتنی دیر نہیں ہوئی تھی۔ آفس فون کرکے دریافت کیا ،پتہ چلا کہ خرم گھر کے لئے نکل چکا ہے۔انتظار کر تے کرتے اس کی آنکھیں بوجھل تو ہو گئیں لیکن اس کو اب فکر لاحق ہوگئی۔

دیر تک انتظار کے بعد باہر سے کہیں شور سا سنائی دیا۔ خسر پھسر کی آوازوں کے بعد لا إله إلا الله زور زور سے پڑھنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ملہار نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا لوگ جلوس کی صورت میں محلے کی طرف آرہے تھے ۔جب اس نے لوگوں کا ہجوم اپنے گھر کی اور بڑھتا ہوا دیکھا وہ کچھ سمجھ نہیں پائی۔ وہ دیوانہ وار بھاگ کر برامدے میں کھڑی ہوگئی ۔ دھول میں لت پت ہانپتے ہوئے گاڑی کا ڈرائیور سلیم سامنے آیا ۔اپنے روبرو حسن کی سجی سنوری مورت ملہار کو دیکھ کر پل بھر کے لئےسلیم ڈرایئور کے دل نے دھڑکنا بند کیا اور سب کچھ بھول گیا اور چند لمحوں تک دیکھتا رہ گیا۔پھر جلدی خود کو سنبھال کر کہنے لگا۔میڈم خ. ر. م خرم صاحب کو راستے میں دل کا دورہ پڑ گیا اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ان کی م۔ و۔ ت موت ہوگئی۔ یہ سنتے ہی ملہار کے وجود پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی اس کی خوبصورت کائنات میں شام ہونے سے پہلے ہی اندھیرا چھا گیا۔ وہ سکتے میں آگئی۔ آنکھیں کھلی کی کھلی،جیسے سدھ بدھ ہی کھو گئی۔ گھر کی بیٹھک میں اس کو کس نے پہنچا دیا اس کو پتہ نہیں چلا۔ آنسوں کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا۔ لوگ باتیں کرتے رہے ،وہ بس دیکھتی رہی۔وہ اپنی ساسو اماں کو سینہ کوبی کرتے ہوئے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی ۔ ایک قریبی رشتہ دار عورت اس کی ساس کو دلاسہ دیتے ہوئے سراہنے سے سو سو کے نوٹوں والی تھیلی آہستہ سے اٹھا کر اپنے بغل میں چھپا کر نو دو گیارہ ہوگئی۔دوسری طرف خالص چاندی سے بنی ہوئی دیواری تصویر جس پر’ ان اللہ مع الصابرین ‘،چاندی سے ہی کشیدہ کیا ہوا تھا۔ کسی نے اتار کر پلنگ چادر میں لپیٹ کر باہر کی راہ لی۔ میز پر سجے مصر کے دو قیمتی مجسمے جو خرم کو تحفے میں ملے تھے کسی نے نظریں بچا کے اٹھائے اور رفو چکر ہو گیا ۔اس کے بعد ہی کئی عورتوں نے مل کر ملہار کو خرم کی میت کے سامنے بٹھایا اور رولانے کی کوشش کی، پر مجال ہے کہ ملہار کے منہ سے ایک چیخ یا پھر آنکھوں سے ایک بھی آنسو کا قطرہ ٹپکے۔خرم کا جنازہ اٹھا ، پر ملہار دیدیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔خرم کے کپڑے ایک اور رشتہ دار نے ملہار کے سامنے رکھ دیئے ۔خرم کی قیمتی انگوٹھی، گھڑی اور سونے کی زنجیر اس رشتہ دار نے خود پہن کے رکھے تھے ۔مصنوعی سوگوار لہجے میں کہنے لگا،’ یہ چیزیں تبرک سمجھ اپنے پا س رکھ لوں گا۔ آخر خرم میرا چھوٹا بھائی تھا۔آپ برا نہ مانیں‘۔
ملہار کی زبان پر جیسے موت نے خاموشی کے پہرے دار بٹھا رکھے تھے۔ موت کے اس تانڈو کے بعدلوگوں کا شیطانی رویہ دیکھ کر وہ اس قدر بد حال ہو گئی کہ اس کو جب ہوش آیا تب تک موت کا طوفان تھم چکا تھا۔سامنے دونوں بچے اس کی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کر رہے تھے۔ سامنے بستر کے قریب بیٹھی ساسو اماں معصوم بچے کی طرح روتے روتے کہنے لگی، ملہار بیٹا، تمہیں اگر کچھ ہوگیا میں کیا کروں گی۔ میرے اور بچوں کے لئے اپنے آپ کو سنبھالو ۔

ان تینوں کے زرد چہرے دیکھ کر ملہار کا دل درد کی آگ میں جل گیا ۔آنکھوں میں منجمد ہوئے آنسوں ایک دم پگھل گئے اور نہ تھمنے والے دھارے آنسوؤں کی صورت میں بہنے لگے۔ یوں لگتا تھا کہ ساری خدائی رونے میں ملہار کا ساتھ دے رہی ہو۔
تب سے ملہار نے پورا دھیان بچوں کی پرورش اور ساس کی دیکھ بھال پر صرف کرنا شروع کیا۔روز بچوں کو سکول بھیج کر ساسو اماں کے ساتھ مل کر گھر کے باقی ماندہ کام ختم کرتی ۔ اس کے بعد گھر بیٹھے ہی شوہر کے کاروبار کا حساب وغیرہ دیکھنا اس کا معمول بن گیا۔
ساسو اماں اس سے پہلے بیٹے خرم کے ساتھ روز پارک تک چہل قدمی کرتی ۔اب ان کے فوت ہونے کے بعد ملہار اس کے ساتھ جانے لگی۔اس دن پارک کی اور چلتے ہوئے ساسو اماں کو پیاس لگی ملہار نے اس کو سڑک کے ایک طرف بٹھا دیا اور خود پانی کی بوتل لانے کیلئے دکاندار کے پاس گئی۔ پڑوس کے مسٹر رضوی سامنے آئے اور راستہ روک کر کہنے لگے مس….مسزز خرم،نہیں مس ملہار کہنا چاہیے،اسلام علیکم،کیسی ہیں آپ ؟

وعلیکم سلام ! الحمداللہ۔ملہار نے نظریں جھکا کر مختصر سا جواب دیا ۔
مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ اب آپ تنہائی محسوس کررہی ہونگی، اگر آپ کی اجازت ہو تو…. م….ی..ں میں آپ کے ساتھ وقت بتایا کروں گا مجھے خوشی ہوگی، مسٹر رضوی نے خرافاتی لہجے میں کہا ۔

ملہار کے عزت نفس کو پڑوسی کے الفاظ چھلنی کرگئے پر اس نے خود کو سنبھال لیا۔اس کے وجود میں جیسے شیرنی کی قوت آگئی۔اس نے گردن اٹھا کے اور ذرا قدم جما کے کہا، مسٹر رضوی، میرا وقت کیسے گزرتا ہے آپ اس کی فکر نہ کریں ۔ خدانخواستہ ایسا ہی وقت اگر آپ کے گھر سے ہو کے گزرے جیسا ہمارے گھر پر گزرا ہے اور کوئی پڑوسی آکے آپ کی بیوی کو ایسی ہی ہمدردی جتائے، تو …….!
مسٹر رضوی کھسیانی صورت بنا کر کچھ کہنے لگے، لیکن ملہار اس سے پہلے ہی آگے نکل چکی تھی۔ اس نے پانی کی بوتل اٹھائی اور ساسو اماں کے پاس پہنچی۔ گھر پہنچ کر اس کو ایک طرف مسٹر رضوی کی باتیں سنائی دیتیں تو دوسری طرف خرم کے فوت ہونے کے کچھ مہینوں بعد اپنے بڑے بھائی کے اظہار کئے ہوئے انکشافات یاد آئے۔
’ملہار تم خوبصورت ہو، جوان ہو، شادی کرلو، یہ پہاڑ سی زندگی اکیلے گزارنا مشکل ہو جائے گا۔اگر کسی نے، اپنے یا پرائے مرد کے ساتھ بات کرتے دیکھ لیا تو منگھڑت کہانیاں بنا کر تمہارا جینا حرام کردیں گے۔

بنا مطلب کے آس پڑوس والے آکے جھوٹی ہمدردیاں جتا کے مشکل میں ڈال دیں گے‘۔
ملہار نے بڑے بھائی کی تجویز کو مسترد کرکے کہا تھا،’ بھائی میں ہر مشکل کا سامنا کروں گی لیکن بچوں اور اماں کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتی۔
بالخصوص میں اپنی زندگی میں خرم کی جگہ کسی اور کو نہیں دیکھ سکوں گی‘۔
ملہار اس واقعہ کے بعد بہت کم گھر سے نکلتی تھی اور ساسو اماں کو گھر کی خادمہ زینت کے ساتھ پارک بھیجتی تھی۔
وقت چلتا رہا۔ دونوں بچے پڑھ لکھ کرملک سے باہر سیٹل ہوگئے۔

آج ساسو اماں کا چالیسواں تھا۔موت کے بے رحم ہاتھوں نے ملہار کی زندگی کی ناؤ کو ایک بار پھر بھنور میں لاکر کھڑا کر دیا۔ ساسو اماں کی موت سے ملہار جیسے اپنے قبیلے سے بچھڑ گئی۔
اتنے سالوں بعد آج پتہ نہیں کسی انجان ڈر کی کیفیت اس کے ذہن پر سوار ہوگئی۔یہ خوف اس کے سامنے مہیب منظر بنانے لگا۔کئی دنوں سے اپنے ہی گھر کا کتا، جس کا نام داروغہ تھا، ملہار کو دیکھتے ہی بھونکنے لگتا تھا۔ڈابر مین نسل کا کتا تھا اور بڑا وفادار بھی۔ قبل از وقت خطرے سے آگاہ کرتا تھا۔
ملہار سوچتی رہی آخر داروغہ کس خطرے سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اپنے آپ پر ہنسی آئی اور خود سے پوچھنے لگی۔ “اب میری زندگی میں کیا ہونا باقی رہ گیا۔ اسی دن میرا وجود مٹ چکا تھا جس دن خرم بھری جوانی میں ابدی نیند سو گیا تھا۔تب سے زندگی کے اس قید خانے میں صرف سانسیں ہی تو گن رہی ہوں۔”
تب ہی اس کو بچوں کا خیال آیا لیکن ان سے تو کچھ دیر پہلے ہی بات ہوئی تھی۔

بھونکنے کی آواز بالکل کمرے کے باہر سے آئی۔ ملہار نے نہ کتے کو ڈانٹا اور نہ ہی اس کے بھونکنے پر دھیان دیا۔وہ نماز پڑھ کر موبائل پر مرزا غالب کی لکھی ہوئی غزل سننے لگی ۔
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر تیرا وقت سفر یاد آیا
کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی، زینت خیریت ہے کیا ہوا۔ ملہار نے دستک سنتے ہی جواب دیا۔گھڑی کی طرف دیکھ کر اسے خیال آیا زینت کھانا لے کے آگئی ہوگی۔ٹھہرو زینت آرہی ہوں، تمہارا گونگا ہونا بھی میرے لئے کسی آزمائش سے کم نہیں رہا، ملہار نے کسک بھری آواز میں کہتے ہوئے دروازہ کھولا۔ زینت نہیں تھی۔ ملہار نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، تم ، ……….!

آنکھوں میں خمار اور ہونٹوں پر ہوس بھری مسکراہٹ لئے ڈرائیور سلیم نے کہا ، میڈم اُس دن سے انتظار میں ہوں جس دن خرم صاحب ا نتقال کرگئےتھے۔اس دن سے آپ کا روپ میرے دل اور دماغ پر حاوی ہوچکا ہے آج موقع ہاتھ لگا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے ڈرائیور سلیم نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ملہار نے ہمت جٹا کے دروازے کے پردے کو زور سے کھینچا جس کے نتیجے میں لوہے کی راڈ گر کر ڈرائیور سلیم کے سر پر گر گئی اور لہو لہان ہوکر گر گیا۔

���
وزیر باغ، سرینگر
موبائل نمبر؛9419553094
[email protected]