ناراضگی

اُس کو مجھ سے ناراض ہوئے لگ بھگ پندرہ ماہ کے قریب ہو چُکے تھے، ناراضگی کی وجہ کچھ خاص تو نہیں تھی لیکن اُس نے دل سے لگا لی تھی، دراصل اس ناراضگی کی بُنیادی وجہ سوشل میڈیا تھا۔ میں نے زندگی کے تلخ تجربات سے متعلق فیس بُک پر ایک پوسٹ لگائی تھی، جسے احباب پسند بھی کر رہے تھے اور اپنے تاثرات بھی ثبت کر رہے تھے، میں بھی ردِ عمل کے طور پر فرداً فرداً اُن کا شکریہ ادا کر رہا تھا _۔ پوسٹ پُرانی ہوگئی اور میں بھی اُس تحریر کو بھول چُکا تھا _۔ اس دوران میں نے دو تین مرتبہ اُسے فون کئے لیکن اُس نے کال رسیو نہیں کی _ میں نے مسیج کیا _؛
کیا بات ہے بھائی فون نہیں اُٹھا رہے ہو ؟ کیا مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہے؟
تو وہاں سے جو جواب آیا پڑھ کر میں ششدر رہ گیا _لکھا تھا:- تم نے اپنی پوسٹ پر تاثرات دینے والے ہر فرد کا شکریہ ادا کیا لیکن میرے کمینٹ کو نظر انداز کر دیا، شاید میں اس لائق تھا ہی نہیں۔ اس بات سے میرے دل کو سخت چوٹ پہنچی ہے۔ آج سے میری اور تمہاری دوستی ختم۔ آئیندہ مجھے فون مت کرنا۔
وہ دن اور آج کا دن میں نے بھی اپنی انّا بچانے کے لئے اُسے کبھی فون نہیں کیا _ لیکن پتہ نہیں کیونکہ آج دل نے کہا،، اُسے فون کرکے خیریت دریافت کروں۔ _ اُس کے بیوی بچے نہ جانے میرے بارے میں کیا سوچتے ہونگے _ حالانکہ دو تین ماہ بعد تو اُس کے ہاں چکر لگتا رہتا تھا۔ میں نے فون اُٹھا کر اُس کا نمبر ڈائل کیا لیکن کال رسیو نہیں ہوئی _ میں نے پھر نمبر ڈائل کیا تو کچھ دیر بعد اُس کی بیٹی نے فون اُٹھایا ،،
کیسی ہو بیٹا؟
جی آپ کون؟ ارے بیٹی میں الطاف چچا ہوں _
اووووووہ! الطاف چچا،، شُکر الله کا-
حمید کو ذرا فون دو _
بابا تو یہاں سے چلے گئے _
کیا مطلب؟ کہاں چلے گئے؟
اُن کا تو انتقال ہو چُکا ہے _
کب؟؟؟؟؟؟؟
چودہ ماہ پہلے ۔۔۔!!!
کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟