سنڈے مارکیٹ افسانہ

شبنم بنت رشید
پتہ نہیں کیوں آج میں اپنے اندر بے سکونی سی محسوس کر رہی تھی۔ کمرے کے اندر ٹہلتے ٹہلتے نہ جانے کن خیالوں میں کھو گئی تھی کہ اچانک میری بیٹی ستارہ کمرے میں آکر بڑے پیار سے کہنے لگی مما میں بیٹھے بیٹھے بور ہو رہی ہوں۔ کل سنڈے ہے کیوں نہ ہم دونوں کل سنڈے مارکیٹ چلیں؟ میرا دل کہیں آنے جانے کی نہیں کررہا تھا مگر میں اسے منع نہ کر سکی کیونکہ بیٹی ذات کا دل رکھنا ماں کا فرض ہوتا ہے۔ میرا اقرار سن کر ستارہ خوش ہوئی۔ صبح سویرے ہی میں نے چائے ناشتہ اور دن کا کھانا تیار کرکے شام کے لیے بھی سالن وغیرہ بنا کر فرج میں رکھ دیا۔ کچن کے دوسرے کاموں سے فارغ ہوئی تو میں نے دوپہر کا کھانا کچھ ٹائم پہلے کھا لیا۔ جولائی کا مہینہ اور جولائی کی چڑچڑی دھوپ۔ میں نے پانی کی ایک بوتل اور پیسے بیگ میں ڈال دیئے اور پھر تیار ہوکر ہم دونوں ماں بیٹی سنڈے مارکیٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ صبح سے رات دیر گئے تک پر رونق رہنے والے بازار کی اکثر دکانیں تو اتوار کی وجہ سے بند تھیں۔ دراصل ہر چھوٹے بڑے شہر کی شان و شوکت اور خوبصورتی بازاروں میں چھپی ہوتی ہے۔ کسی معاشرے کی آسودہ حالی اور تہذیب کا اندازہ بھی اسکے بازاروں سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ سنڈے مارکیٹ کی مقبولیت بھی تو یہی پیغام دے کر شہر کی شان اور تجارت میں چار چاند لگا رہی ہے۔ لمبی اور کشادہ سڑک کے دونوں طرف بڑے سلیقے سے بے شمار کھاٹوں پر پر کشش رنگوں کے کہیں نئے تو کہیں پرانے کپڑے، جوتے جرابے، چپل، کمبل، رضائیاں، بیڈ شیٹ، کتابیں اور بجلی پر چلنے والاکچن کی ضرورت کے بے شمار سامان کے علاوہ کشمیری کڑھائی کی چیزیں جیسے پرس، پاوچ، فرن، سوٹ شال، سٹال، کھڑکیوں کے پردے اور تکیوں کے خول اور قالین ہر انسان کا دل اپنی طرف کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ یہ مارکیٹ اپنے اندر بہت ساری خوبیاں پالتا ہے۔ جہاں ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے وہیں ساتھ ساتھ امیر، غریب اور متوسط طبقے کے خریداروں کو سستے داموں میں من پسند چیزیں بھی ملتی ہیں۔
ٹھیلوں پر کھانے پینے کی بے شمار لذیذ چیزیں بھی آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں۔ جہاں بچوں کے لیے کھیل کھلونے وہیں جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے خود ساختہ حکیم بھی ملیں گے۔ شہر تو شہر دور دیہاتوں سے بھی لوگوں کا ایک ہجوم اُمڈ آتا ہے جن میں مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے پورے شہر کو اس لمبی سڑک پر سمیٹا گیا ہو۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی کا احساس دنیا کو یہاں کی خوشحالی، امن اور محبت کا پیغام دیتا ہے۔ ستارہ نے سب سے پہلے اپنی پسندیدہ ’’مسالہ ثوٹ‘‘( چنا روٹی) اور پھر پانی پوری کا پیٹ بھر کے لطف اٹھایا۔ اسکے بعد ہم ماں بیٹی بھی رش کو چیرتے ہوئے باقی لوگوں کی طرح بے مروتی سے چیزوں کو کھنگالتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ اس طرح ہم نے اس بازار کے کئی چکر کاٹے۔ میں نے کچن میں کام آنے والی کئی چیزیں خرید لیں مگر ستارہ کو اس بھرے بازار میں ایک بھی چیز پسند نہ آئی۔ میں کافی تھک چکی تھی۔ پیر سست ہوگئے تھے اور ٹانگیں بھی دکھ رہی تھیں۔ گرمی سے بھی برا حال تھا۔ میں نے ماتھے کا پسینہ پونچھتے گھر کی راہ لینے کا ارادہ کر لیا کیونکہ عصر کی اذان بھی بہت پہلے ہوچکی تھی۔ بھیڑ سے تھوڑا نکل کر تیز تیز قدم اٹھا کر کچھ ہی گز آگے بڑھی تھی تو پیچھے سے ستارہ نے بلایا مما۔۔۔۔!!
’’کہاں رہ گئی۔ دیر ہو رہی ہے ۔‘‘
میں یہ کہنے کے لیے پلٹی تو دیکھا کہ وہ ایک ریڑی کے پاس کھڑی تھی۔ وہ اب مجھے ہاتھ سے اپنے پاس بلانے کا اشارہ کر رہی تھی۔ میں واپس ریڑی کے پاس پہنچی تو ستارہ تب تک بے پرواہی سے ریڑی پر رکھے چھوٹے چھوٹے کپڑوں کے انبار سے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کپڑے چن چن کر رہڑی کے ایک سائیڈپر رکھنے میں مصروف ہو گئی۔ ریڑی والا لڑکا مسلسل مگر دھیمے لہجے میں آوازیں دے رہا تھا۔ دس کے دو! دس کے دو! آئے لے جایئے دس کے دو! میں جیسے ستارہ کے قریب آئی تو ستارہ نے چنے ہوئے کپڑوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر اس سے کہا
’’بھیا کیا میں یہ کپڑے لے سکتی ہوں؟‘‘ پتا نہیں معصوم بچی کے دماغ میں کیا چل رہا تھا وہ کیا سوچ کر یہ چھوٹے چھوٹے کپڑے خریدنا چاہ رہی تھی؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اس سے پہلے میں ستارہ سے کچھ کہتی تو ریڑی والے لڑکے نے کہا کیوں نہیں لے سکتی؟ خرید لو جتنی مرضی ہے میں نے تو ابھی تک بونی تک نہیں کی۔ اس لڑکے کی خوبصورت آنکھوں سے موٹے موٹے آنسوں گرنے لگے۔ اس کا پورا چہرہ سفید پڑ گیا۔ میری ساری توجہ اب ستارہ کے بجائے اس لڑکے کی طرف گئی جو حلیے سے سچا اور شریف لگ رہا تھا۔ کیوں بیٹا تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں آئے؟ کیا بات ہے؟ کیا مسلہ ہے؟ بتاو مجھے میں بھی تمہاری ماں کی طرح ہوں۔ میرے اسرار کرنے پر اس نے کسی ننھے بچے کی طرح اپنے آنسوں صاف کئے اور کہنے لگا آنٹی میرا نام تابش ہے۔ گھر کی جمع پونجی پہلے ہی ابا کی بیماری پر خرچ ہوگئ۔ انکے انتقال کے بعد میں پڑھائی چھوڑ کر کام کرنے لگا کیونکہ گھر میں کھانے کے لالے پڑ گئے تھے۔ مگر میرے کام کا کوئی بھروسہ نہیں کبھی ملتا ہے تو کبھی نہیں۔ میری ایک چھوٹی بہن ہے وہ بہت ذہین ہے۔
بہت پڑھنا چاہتی ہے۔ امی تو خیر سے ٹھیک ہے پھر بھی اسے نہار منہ کئی ضروری دوائیاں کھانی پڑتی ہے۔ اضافی اخراجات پورے کرنے کے لیے اسی لئے یہاں ہر سنڈے کو آتا ہوں تاکہ ان کا خرچہ آرام سے ملے۔ مگر پچھلی تین اتواروں سے تو میری بونی ہی نہیں ہوئی۔ شاید اس لیے کہ میرے حصے میں ایسا ہی مال آیا جس کا کوئی خریدار ہی نہیں۔ کل منڈے ہے بہن کی امتحانی فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔ دوسری طرف امی کی دوائیاں ختم ہونے والی ہے۔ بہن دس بار صبح سے فون کر کے پوچھ چکی ہے کہ کیا بھیا بونی ہوئی؟ کیا میں کل فیس جمع کر پاوں گی؟ میں اسے صرف تسلی دیتا رہا۔ میری جان نکلتی جارہی ہے۔ اب گھر جانے کا من بھی نہیں کررہا ہے۔ وہ معصوم پریشان حال نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتے دیکھتے خاموش ہوگیا۔ تب تک ستارہ نے اپنے من پسند رنگوں کے ڈھیر سارے کپڑے گن گن کر بیگ میں ٹھونس ٹھونس کر بھر دیئے۔ میں تمہاری زیادہ مدد تو نہیں کر سکتی بیٹا۔ بہن کی فیس اور امی کی دوائیوں کے لیے کچھ پیسے تابش کے منع کرنے کے باوجود اسے یہ کہہ کر تھمادیے کہ رکھ لو بیٹا جب تمہارے پاس پیسے آجائے تو لوٹا دینا۔ فی الحال قرضہ حسنہ سمجھ کر رکھ لے نا۔ ہم نے ایک دوسرے کے فون نمبرات اپنے اپنے فون میں سیو کئے۔ ہم ماں بیٹی تھکے ہارے گھر پہنچے۔ شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں تابش کی مدد کئے بغیر گھر آجاتی تو شاید زندگی بھر خود کو معاف نہ کرپاتی۔ آنے والا وقت میرے لئے عذاب بن جاتا۔ کیا کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’کبھی کبھی بلا ضرورت چھوٹی چھوٹی چیزیں خرید لیا کرو کیونکہ یہ فروخت کرنے والے لوگ وہیں ہوتے ہیں جو سڑکوں پر آوارگی نہیں کرتے، چوری نہیں کرتے اور بھیک بھی نہیں مانگتے‘‘۔
یہی سوچتے سوچتے نہ جانے کب میں نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ صبح عجیب احساس کے ساتھ بیدار ہوئی ۔ چاے پیتے ہوئے اخبار سامنے لایا تو پہلے ہی صفحے پر بڑے بڑے حرفوں سے یہ خبر لکھی ہوئی ملی کہ ’کل سنڑے مارکیٹ میں لوگوں کی بڑی تعداد نے کروڑوں روپے کی خریداری کی‘
ہر حال میں ہنسنے کا ہنر تھا جن کے پاس وہ رونے لگے کوئی بات تو ہوگی۔
���
پہلگام اننت ناگ،موبائل نمبر؛9419038028