بارشوں کا سلسلہ اور نکاسی آب کا مسئلہ

محض دو دنوں کی بارشوں سے شہر سرینگر اور دیگر اضلاع میں نکاس آب کی عدم دستیابی اور ناقص نظام کے باعث جس طرح اہم شاہراہوں،رابطہ سڑکوں اور گلی کوچوں نے جھیلوں اور نالوں کی شکل اختیار کرلی ، ایک تشویش ناک امر سے کم نہیں ہے،اس صورت حال سے جہاں بیشترسڑکوں پر آمدروفت میں زبردست خلل پڑا ،وہیںبارشوں کے پانی بیشتر رہائشی مکانوں میں بھی گھُس گیا۔ حسب ِ روایت جب جب یہ مناظر ہماری نظروں کےسامنے آجاتے ہیں ،تو اُس وقت یہاں کی حکومت کی طرف سے عوامی فلاح و بہبودکی خاطر اٹھائےگئے اقدامات اور کئے گئے کاموںکے دعوئوں کے جہاں پول کھُل جاتے ہیںوہیں حکومتی اداروں کی کارکردگیوں کی قلعی بھی اُتر جاتی ہے اور یہ صورت حال عیاں وبیاںہوجاتی ہے کہ سرکاری انتظامیہ کی طرف وادی ٔ کشمیر کے اطراف و اکناف اور کشمیر کی راجدھانی شہر سرینگر کو آلودگی سے صاف و پاک رکھنے اور عوام کو درپیش مسائل دور کرنے کے لئے کس طرح کی نام نہادکار آمد کوششیں کی گئی ہیں یا کون سے مثبت اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟موسم سرما ہو یا موسم گرما ،برف باری ہو یا بارشیں،عوام الناس کے لئے پیدا ہونے والے مسائل میں اب تک کوئی فرق نہیں آرہی ہے۔جبکہ آلودگی کی حد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور حفظان صحت کا مسئلہ بھی کھڑا ہو جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں کے زیادہ تر ناکارہ اور خستہ حال ڈرنیج سسٹم،بنا دڈھکن کے مین ہولوں،ٹوٹے پھوٹے فُٹ پاتھوں،کھنڈرات میں تبدیل شدہ سڑکوں اور گلی کوچوںنے لوگوں کو پہلے ہی مختلف مسائل و مشکلات سے دوچار کرکے رکھا ہے ،جبکہ حالیہ موسم سرماکے دوران برف باری اور بارشوں نے مختلف علاقوں میں قہر برپا کیا تھا اور اب بارشوں کے سلسلےنے حالتِ زار مزید ابتر کردی ہے۔ بعض نشیبی علاقوں میں نکاس آب کی عدم دستیابی کے باعث مختلف بستیوںکے ارد گرد گندے پانی کے جوہڑ پیدا ہوگئے ہیں،جو اس بات کے اغماض ہیں کہ آنے والی گرمیوں کے ایام میںناسور کی شکل اختیار کرکے فضا اور ماحول کو مزید پراگندہ بنانے میںکارگر ہو سکتےہیں۔عوام میںعام تاثر یہی ہے کہ حکومت لوگوں کے مسائل حل کرنے اور عوامی بہبود کے کاموں کو نظر انداز کررہی ہے۔اہم نوعیت کےعوامی مسائل حل کرنے میں دل چسپی نہیں لے رہی ہے۔حالانکہ جس رفتار کے ساتھ شہر اور دوسرے اضلاع کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے،اُسی رفتار سے عوامی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں،ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت کو جس تجزیے اور جس پیمانے پر منصوبہ بندی ،پروگرام اور حکمت عملی کے تحت اقدامات اُٹھانے کی ضرورت تھی اور ہے ،اُن کا کہیں بھی نام و نشان نہیں مل رہا ہے۔ صورت حال وہی دکھائی دیتی ہے جو پچھلے تین عشروں سے چلی آرہی ہے۔وہی گھِسی پٹی منصوبہ بندی ،وہی بوسیدہ نظام ،وہی زنگ آلودہ سسٹم،وہی ناقص حکمت عملی اور روایتی کام ہر طرف عام ہیں،جو وقت وقت پر خام ثابت ہوچکے ہیں۔اگرچہ سرکاری انتظامیہ کے تقریباً سبھی شعبوں میں ملازمین اور افسروں کی بھرمارہےلیکن کسی بھی شعبے کی کارکردگی میں کوئی نمایاں سُدھار یا نکھار نہیں آیا ہے۔تاہم انجینئرنگ شعبوں کی کارکردگی حد سے زیادہ ناقص دکھائی دے رہی ہے۔آج بھی ان شعبوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو ہمیشہ کی طرح ناقص اور پست ہی نظر آتی ہےاور ایسا لگتا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں انجینئرنگ شعبے محض برائے نام قائم ہیں، اس شعبے کی طرف سے ایسی کوئی کارکردگی سامنے نہیں آ سکی ہے ،جسے قابل قدر یا قابل ذکر کہا جاسکتا۔البتہ آج تک انجینئرنگ شعبوں نے جو سب سے نمایاں کام سر انجام دیا ہے ،وہ اُن کی بد عنوانیوں کے نام پر ہی یاد کیا جارہا ہےبلکہ بعض اوقات اس معاملے میں ریکارڈ بھی قائم کرچکے ہیں۔آج بھی اگر وادی کے اطراف و اکناف کے دیہات ،دور دراز علاقوں میں عموماًاور شہر سرینگر کے گنجان آباد علاقوں میں خصوصاً انجینئرنگ شعبوں کی طرف سے کئے جارہے کام کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورت حال میں کسی قسم کی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیںجبکہ پبلک رقومات کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔شہر اور دیہات کی مختلف کالونیاںناقص انجینئرنگ سسٹم سے بارشوںکے پانیوں میں ڈوب جاتی ہیں،زرِ کثیر اخراجات سے تعمیر شدہ سمارٹ سٹی کے نکاس آب کا ناکارہ نظام بھی ہم سب کے لئے چشم کُشا ہے،جوکہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔