ایام متبرکہ اور ناجائز منافع خوری | ماہِ رمضان کے قدر دان بنیں

Photo: Aman Farooq

جب بھی ہم کشمیریوں کی معاشرتی زندگی پرغائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آ ہی جاتی ہے کہ ہمارےمعاشرےمیں زیادہ تر لوگوںکی زندگی اور اعمال، روحانیت اور مقصدیت سے خالی ہے۔معاشرے کی اکثریت بے عملی ،بد اعمالی،بے راہ روی اور اباحیت کا شکار ہے، جس کے نتیجہ میں ہمارے ارباب و اقتدار اور کاروباری لوگ ایمان ،دیانت اور فرائض پر مبنی حق باتوں کو خاطر میں لانے کی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں،جبکہ زندگی کے ہر شعبہ سے وابستہ زیادہ تر لوگ اپنے مذہبی اور دینی مقام و مرتبے سے بے نیاز ہوکرمحض دنیاوی فوائد ہی کو سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ رمضان کے اِن مبارک ایام میں بھی لوگ وہ سب کچھ نہیں کرتے ہیںجو کہ احکام ِ الٰہی کے تحت ہمارے لئے لازم ہیں۔حالانکہ ماہِ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے، جس کے معاشی اور روحانی پس منظر میں رمضان المبارک کی سماجی و معاشرتی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے

مگر ہم ہیں کہ اس کے عین مخالف کام کرتے رہتے ہیں،گویا نہ ہمیں رمضان کی قدر ہے اور نہ ہمیں رمضان میں اپنی مغفرت کروانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔یہی وجہ ہے ہمارا معاشرہ ہر سطح پر اور ہر معاملے میںدن بہ دن پست و خست ہورہا ہے اور ہمارے درپیش مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا کوئی بھی مذہبی تہوار آتا ہے،عیدین آتی ہیں یا ماہِ مبارک آتا ہے تو عام کشمیریوں کے لئے درپیش مسائل میں اضافہ ہوناایک روایتی مسئلہ بن جاتا ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافےکا عمل شروع ہوجاتا ہے۔یہاں کے عادی ناجائز منافع خوروںکے خرافات عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور وہ اپنے روایتی خود غرضانہ حیلے بہانوں کے تحت عام لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ِ عمل ہوجاتے ہیں۔روزِ مرہ استعمال کی اشیاء عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوجاتی ہیںاورغریب و متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر بن جاتی ہے۔ حالانکہ سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ معاشی بحران اور انحطاط کی وجہ سےکشمیر کی معاشی ترقی کی رفتار پہلے ہی بُری طرح متاثر ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے بے شمار لوگ روز گار سے محروم ہیں اور کئی پرائیویٹ کمپنیوں ،کارخانوں اور اداروں میں کام کرنے والوں لوگوں کو بھی مناسب تنخواہیں اور اُجرتیںنہیں مل رہی ہیں۔جس سے عام آدمی کی آمدنی بھی متاثر ہوچکی ہے ۔غذائی اجناس کی قیمتوں میں مسلسل بڑھوتری سے ایسا لگتا ہے کہ ان قیمتوں پر قابو پانے کے لئے سرکاری انتظامیہ میں کوئی دلچسپی ہے نہ اس تعلق سے فکر مند ہے۔وادیٔ کشمیرکےعوام کو اِس وقت جس بےلگام اور کمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہے،اُس کا شائد یو ٹی انتظامیہ کو ادراک ہو مگر پھر بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ایک تعجب خیز امریہ بھی ہے کہ روزِ مرہ استعمال ہونے والی اشیائے ضروریات کی مارکیٹ میںدوگنی یا تِگنی وصول کئے جانے کے بعد بھی ناجائز منافع خور طبقہ ناشکرانی کا اظہار کرتا رہتا ہے،جس سے یہ حقیقت بھی نمایاںہوجاتی ہے کہ یہاں کے معاشرے میں ایمانداری ،حق پرستی اور انصاف کا زبردست فقدان ہے،جس سے عام لوگوں کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوجاتا ہے۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ وادیٔ کشمیر کے عام لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور درپیش مسائل کے حل کے لئے جس طرح کی صورت حال کا سامنا ماضی میں کرنا پڑتا تھا،آج یو ٹی انتظامیہ کے دور میں مختلف معاملات میں زیادہ مشکلات ومصائب جھیلنے پڑتے ہیں، جبکہ ناجائز منافع خور مافیا ایک طاقتور شکل اختیار کرچکا ہے۔ چنانچہ ناجائز منافع خوری اور اسمگلنگ کے خلاف کو ئی سخت قانون شایدنافذ ہی نہیں ،اس لئےکھلے عام یہ سارے کام ہو رہے ہیں اورغریب عوام کو ان عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔اشیائے ضروریہ ،خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کرنے کا فائدہ کن کی جیبوں میں جا رہا ہے، یہ بھی گورنر انتظامیہ بہتر طور پرجانتا ہوگا؟ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی انتظامیہ عوام کو درپیش ان مسائل کو حل کرانے کے لئے اعلیٰ سطح پر سوچ بچار کرے اور ایسی ٹھوس کاروائیاں عمل میں لائیں جو ماہِ مبارک کے ان مقدس ایام میں عام لوگوں کے لئے سود مند ثابت ہوسکیں۔جبکہ اپنے آپ کو سچے مسلمان کہنے والے تاجروں ، دکانداروں اور ریڑھے والوں کو چاہئے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں حق پرستی کے ساتھ وصول کرکے رمضان المبارک کے قدر دان بنیں۔