اچھی خبریں کہاں گئیں؟

اس امر کو بھی اب اگر کشمیریوں کی بدقسمتی یا بد بختی قرا دیا جائے تو شائدبے جا نہ ہوگا کہ یہاں اچھی خبروں نے جیسے نہ آنے کی قسم کھائی ہے۔گزشتہ روز منگل کی صبح کو بھی جہلم سانحہ کی جو بُری خبر ملی وہ بھی انتہائی دلسوز اور المناک ہے۔ویسے بھی عرصۂ دراز سے جموں وکشمیر کے لوگ جس صورت حال سے گذرتے چلے آرہے ہیں،اُس دوران جہاںعموماً اچھی خبروں کا قحط پڑا رہا ،وہیں بُری خبروں کا سلسلہ وسیع پیمانے پرجاری و ساری رہا۔خصوصاًنا مساعد حالات کے دوران ہونے والی تباہیوں،بربادیوں،ہلاکتوںاور جبرو زیادتیوں نے جموں و کشمیر کے باشندوں پرجو اَنمٹ نقوش چھوڑ دیئے،وہ ابھی تک مٹ نہیں پائے ہیں۔ پھر آفات ِ سماوی نے بھی زلزلوں،سیلابوں ،طوفانی بارشوں،آندھیوں، برفانی تودے گرنے،زمین دُھنسنےاور پہاڑیاں کھِسکنےکی شکلوں میںجو قہر سامانیاں برپاکیں،اُن کے نشان بھی زائل نہیں ہوپارہے تھے کہ ’کرونا‘ کی شکل میں ایک اور آفت نے دنیا بھر کی طرح جموں و کشمیرمیں قہر برسایا، لوگوں کو رُلایااور تواتر کے ساتھ اس خطہ کے لوگوں کو کسی اچھی خبر کے لئے ترسایا اورتڑپایا۔پھر جب کسی حد تک حالات میں سدھار کی صورت پیدا ہونے لگی اور اچھی خبریں آنے کی اُمید یںجاگنے لگیںتو کشمیری معاشرے میں اس لمبے عرصے کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات نےجس فکری افلاس میں مبتلا کردیا تھا ،اُسکی زوال پذیری بھی سامنے آنے لگی۔خصوصاً معاشرے کی نوجوان نسل کی بگڑی ہوئی صورت حالت نے اچھی خبریں آنے کی اُمیدوںکوکھٹائی میںڈال دیا ہے ،جس کے نتیجے میںاب آئے دن معاشرتی بگاڑ کے تئیں بُری خبروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔چنانچہ پرانے وقتوں میں اس طرح کی خبریں ایک دوسرے تک پہنچنے میں کافی وقت لگ جاتا تھا لیکن اب حال یہ ہے کہ اِدھر بارود میں چنگاری داخل ہوئی،اُدھر سارا منظر سامنے آنا شروع ہوگیا۔ایسا ہی منظر اب روزانہ ہمارے سامنے آرہا ہے۔ اگرچہ اس بگڑی ہوئی صورت حال کے خلاف خلق خدا آواز بلند کر کر کے تھک گئی ہےلیکن بدلائو کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔حالات سے واقف لوگ برسوں سے شور مچا رہے تھے کہ یہ صورت حال معاشرے کو تباہ کردے گی لیکن ہوتا تو وہی ہےجو بد دیانت معاشروں میں ہوتارہا ہے۔ظاہر ہے کہ بددیانتی کی لعنت سے معاشرے کو آج تک نجات نہیںملی اور جہاں بھی نیّت میں فتور ہو تو بے شمار بد اعمالیاں خود ہی سر ابھارنے لگتی ہیں۔ اب یہ سوچنے کا مقام ہے کہ آنے والا وقت ہمیں اور کیسے کیسے منظر دکھاتا ہے۔ چونکہ بات شروع ہوئی تھی کہ یہ اچھی خبروں کو کیا ہوا کہ انہوں نے آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ظاہر ہے جس معاشرے میںحد سے زیادہ منافع خوری ،سرکاری رقومات میں لوٹ کھسوٹ ،رشوت ستانی ،ہیرا پھیری ،بد دیانتی ،بے ایمانی ،جھوٹ ،منشیات کے دھندے ،نقلی ادویات کی فروخت سے جو بہت زیادہ پیسہ حاصل کیاجاتا ہے، وہ پیسہ حرام کاموں پر ہی صرَف ہوتا ہے اور قدرتی امریہ ہے کہ جس معاشرے میں بے ایمانی عام ہو،اُس میں بُرائیاں خود بخود جنم لیتی ہیں۔گویامعاشرے میں انصاف اور ایمان کا بنیادی جذبہ مفقود ہوا ہے، فقط خرابیوں کو تقویت مل گئی ہےاوراہلِ وادی بُرائیوں اور خرابیوں کے باعث تیزی کے ساتھ تہذیبی اور ثقافتی جارحیت کے شکنجے میں جا چکی ہے، اس لئے زیادہ تر بُری خبروں کی ہی بھرمار رہتی ہے۔اب ذرا غور کریں کہ آئے دن ٹریفک حادثات ہوتے رہتے ہیں،جن میں انسانی جانیں تلف ہوتی رہتی ہیں۔ہر معاملے میںقواعد و قانون کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ منشیات کا کاروبار زوروں پر ہے اور منشیات کے عادی لوگوں کے ہاتھوںاب قریبی رشتوں کا بھی قتل ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح مختلف طریقوں سےاپنے ہی ہاتھوں اپنی جانیں ختم کرنے کا دور بھی چل پڑا ہےاور بھی بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جو نہ صرف ہماری تہذیب اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہوتاہے بلکہ ہمارے مذہبی اصولوں کے بھی منافی ہوتا ہے۔اس سب کچھ ہونے کے بعد بھی ہمارے معاشرے کی فکروسوچ بدستور مُفلس اور مُردہ ہے،جس کے نتیجے میں اب ہمارے اندر اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں رہی ہےاور ہر کوئی اس معاملے میں ایک دوسرے کو طعنہ دے کر یا ذمہ دار ٹھہراکر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ اب کوئی اچھی خبر مل ہی نہیں پارہی ہےاور بُری خبروں کی بھرمار ہورہی ہے۔